عموماً ’’دھوکا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا ’’دھوکہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’فرہنگِ اثر (حصۂ سوم)‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘، ’’حسن اللغات (جامع)‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’دھوکا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’فریب‘‘، ’’حیلہ‘‘، ’’مکر‘‘، ’’دغا‘‘، ’’غلط فہمی‘‘، ’’مغالطہ‘‘، ’’سراب جس پر پانی کا دھوکا ہوتا ہے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
صرف ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق ’’دھوکا‘‘ اور ’’دھوکہ‘‘ دونوں طرح کا اِملا صحیح ہے۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 94 پر اِملا ’’دھوکا‘‘ درج کرتے ہیں۔
صاحبِ نور نے مرزا غالبؔ کا ذیل میں دیا جانے والا شعر درج کرکے ایک طرح سے ’’دھوکا‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے، شعر ملاحظہ ہو:
لاگ ہو، تو اس کو ہم سمجھیں لگاو
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں ہم
اس طرح ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ میں حضرتِ رندؔ کا یہ خوب صورت شعر ’’دھوکا‘‘ کے بارے میں رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے کہ
ظلمت ہے آب خضر کی لب پر دھڑی نہیں
تیرے دہن کے ہونے میں دھوکا دھڑی نہیں