مئی 2013ء کے الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں نے جب عوام سے وعدے شروع کئے، تو بدقسمت ووٹروں کے چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھے۔ کیونکہ اب ان کو امید کی ایک کرن ’’تحریک انصاف‘‘ کی شکل میں نظر آ رہی تھی کہ اب ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی، تو ہر طرف ترقی کا دور دورہ ہو گا، تعلیم عام ہو گی، صحت کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ شاہراہیں بنیں گی، تو ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ نئے کارخانے لگیں گے، تو بے روزگاری کو شکست فاش دی جائے گی۔
2013ء کے الیکشن کے نتائج آئے، تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی۔ 90 دن کے اندر اندر اہم شعبوں میں تبدیلی کے دعوے کئے گئے۔ ماہرین، صحت و تعلیم کی خدمات حاصل کرنے اور اور ان کے ذریعے عوام کی تقدیر بدلنے کے اشارے بھی دیئے گئے۔ عوام نے اب دن، ہفتے اور مہینے گننا شروع کر دیئے۔ پھر مہینے کیا سال گزر گئے لیکن ماضی کی طرح اس دفعہ بھی بس پرانے جوتوں میں نئے پیر ہی ڈالے گئے۔ تعلیم، صحت، پولیس اور انفراسٹرکچر میں بڑی تبدیلی کے دعوے تو کئے گئے لیکن یہ وعدے صرف وعدے ہی رہے۔
آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ سال 2013ء میں پاکستان کی حسین ترین وادئی سوات کے مسائل کیا تھے اور ان میں کون سے حل ہوگئے ہیں؟ کہاں بہتری آئی ہے اور کہاں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے؟ چوں کہ تمام مسائل کا احاطہ ایک کالم میں کرنا ممکن نہیں اس لئے چند بڑے مسائل کا ذکر کرتے ہیں، جو کہ گذشتہ کئی سالوں سے غور طلب اور حل طلب ہیں۔ پہلی بات یہ کہ چوں کہ سوات بنیادی طور پر سیاحتی علاقہ ہے، اس لئے زیادہ تر لوگوں کے روزگار کا دار و مدار سیاحت پر ہے، لیکن سوات کے سیاحتی مقامات ملم جبہ اور کالام کی سڑک 2013ء سے پہلے بھی خراب تھی اور آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ کالام سڑک کی ذمہ داری تو وفاقی حکومت اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر ہے، لیکن صوبائی حکومت کو اپنے حق کیلئے مرکزی حکومت سے احتجاج ضرور کرنا چاہئے۔ اس طریقے سے ملم جبہ روڈ کی تعمیر بلا کسی تاخیر شروع کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ سڑکیں ٹھیک ہوں گی، تو سیاح یہاں کا رُخ کریں گے۔ اور تو اور ملم جبہ ریزارٹ میں چار ارب روپے کی انوسٹمنٹ کرنے والی کمپنی بھی یہی رونا رو رہی ہے کہ صوبائی حکومت نے ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے۔ اس لئے اب وہ اس انوسٹمنٹ پر انتہائی نالاں نظر آرہی ہے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ سوات کی آبادی پشاور اور مردان کے بعد پورے خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن بدقسمتی سے ہر سال خاص طور پر گرمی کے موسم میں بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ یہاں کے باسیوں کا مقدر بنتی ہے۔ محکمہ واپڈا کے مطابق لوڈ شیڈنگ کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسمیشن لائن کی بوسیدگی ہے، جو کہ 2013ء سے پہلے بھی تسلی بخش نہ تھی اور آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ مرکزی حکومت نے حل کرنا ہے لیکن صوبائی حکومت کو مرکزی حکومت کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھانا چاہئے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم کے مشیر انجینئر امیرمقام کو سنجیدگی سے اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
تیسری اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ سال 2010ء میں اے این پی کی صوبائی حکومت نے سوات یونیورسٹی کا اعلان کیا، تو یہاں کے عوام نے شکر ادا کیا، لیکن بدقسمتی سے گذشتہ حکومت ختم ہوئی اور موجودہ حکومت ختم ہونے والی ہے، لیکن آج تک یہ درسگاہ اپنی عمارت تک سے محروم ہے اور کرائے کی عمارت میں تعلیمی سلسلہ کسی حد تک چلایا جا رہا ہے۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کی آپس کی چپقلش اور محاذ ارائی کے باعث اس یو نیورسٹی میں کو ئی وائس چانسلر نہیں ہے، جس کے باعث طلبہ اور ایڈمنسٹریشن کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ سیکڑوں طلبہ کی ڈگریاں معلق ہو کر رہ گئی ہیں۔ مستقل وائس چانسلر نہ ہو نے سے گومگو کی کیفیت ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال سیدو شریف کا نام تبدیل کرکے سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال تو رکھ دیا گیا، لیکن اس کے ساتھ متصل 1100 بیڈ ز پر مشتمل متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں شروع ہو نے والے ہسپتال کو فنکشنل نہ کیا جاسکا، جس کے باعث یہاں مقامی اور دیگر اضلاع سے آنے والے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ صرف سوات ہی نہیں بلکہ پورے ملاکنڈ دویژن کے سب سے بڑے شہر مینگورہ میں کالجوں کی کمی کے باعث ہر سال سیکڑوں طلبہ و طالبات داخلوں سے محروم رہ جاتی ہیں لیکن ’’تعلیمی ایمر جنسی‘‘ کا نعرہ لگانے والی حکومت نئے کالجز کی تعمیر میں ناکام ہے۔ ’’روشن مستقبل‘‘ اور ’’تعلیم سب کیلئے‘‘ جیسے دعوے بس دعوے ہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لنک روڈز اور پارکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث گذشتہ چار سالوں میں ٹریفک کے مسائل میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں ٹیوب ویلوں کی خرابی کو دور نہ کرنے کے باعث شہریوں کو پانی کے حصول میں مسلسل مشکلات کا سامنا ہے۔
اس طرح اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ’’سوات موٹر وے‘‘ صوبائی حکومت کا بہت بڑا منصوبہ ہے، جس سے سہولیات کے ساتھ ساتھ سفر میں کمی بھی آئے گی۔ اس کے ساتھ سوات کو سی پیک میں شامل کرنے کیلئے دریائے سوات کے کنارے بننے والی سڑک کے مجوزہ منصوبے کو عملی شکل دینا ضروری ہے، جس سے ایک طرف اقتصادی ترقی آئے گی، تو دوسری طرف سفری مشکلات بھی کم ہوجائیں گی۔
اس وقت حکمران جماعت کی صوبائی اسمبلی کے 6 اور قومی اسمبلی کے 2 منتخب نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ اگر موجودہ حکومت سال 2018ء کے جنرل الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے، تو جنگی بنیادوں پر ان مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ بصوررت دیگر ان کا حشر یہاں پہلے حکومت کرنے والوں سے مختلف نہ ہو گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
…………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔