راؤ انوار ثانی ’’فیض اللہ‘‘ بارے سنسنی خیز انکشافات

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے پولیس سٹیشن میں طالب علم عبید خان کے قتل کیس کے مرکزی کردار سپیشل ٹیم کے انچارج اے ایس آئی فیض اللہ کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
فیض اللہ ہے کون؟
فیض اللہ دراصل ڈویژنل پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) سوات کا دست راست بتایا جاتا ہے۔ ڈی پی اُو شفیع اللہ جہاں پر تعینات ہوتے ہیں، فیض اللہ بھی ان کے ساتھ وہاں پر ڈیوٹی کرتا ہے۔ فیض اللہ کو ڈی پی اُو سوات نے سپیشل ٹیم کا انچارج بنا رکھا تھا، جو لوگوں کو بغیر ایف آئی آر درج کیے اُٹھا کر کانجو پولیس سٹیشن کی بیسمنٹ میں قائم ٹارچر سیل منتقل کرتا تھا۔ وہاں پر اُٹھانے والے کو حبسِ بے جا میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ فیض اللہ کو بے پناہ اختیارات دیے گئے تھے۔ کوئی بھی پولیس آفیسر اُس کے کام میں مداخت نہیں کرسکتا تھا۔ فیض اللہ کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عبید خان کو قتل کرنے کے بعد فیض اللہ کو باقاعدہ طور پر پولیس کے سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سوات پولیس کے دیگر اہل کاروں نے فیض اللہ کی مشکوک سرگرمیوں اور شریف لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کے بارے میں بار بار افسران کو شکایات بھی کی تھی، لیکن فیض اللہ اتنا طاقت ور تھا کہ کوئی بھی افسر اس کو کچھ نہیں کَہ سکتا تھا۔ جب عبید خان سے سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہل کاروں نے تلخ کلامی کی، تو فیض اللہ وہاں پر پہنچا اور عبید خان کو گرفتار کرکے پولیس سٹیشن بنڑ منتقل کردیا، جہاں پر بعد میں کمرے کے اندر عبید خان کو گولی مارکر قتل کردیا گیا۔ اس واقعے سے پولیس افسران کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ سوات میں فیض اللہ کو راؤ انور ثانی کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ڈی پی اُو سوات اس بارے کیا کہتے ہیں؟
ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کہا جاتا ہے کہ فیض اللہ اے ایس آئی آپ کا خاص بندہ تھا، اور آپ نے اس کو بااختیار بنایا تھا، تو ڈی پی اُو نے جواباً کہا کہ ’’فیض اللہ پولیس اہل کار ہے۔ ہر جگہ ڈیوٹی کرسکتا ہے۔ مَیں نے اُس کو گرفتار کیا ہے اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ اگر مَیں نے اس کو بچانے کی کوشش کی، تو پھر میں ذمے دار ہوں۔ کوئی بھی اہل کار غلط کام میں ملوث ہو، تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی۔ چاہے وہ فیض اللہ ہو یا کوئی اور۔ عبید خان کے لواحقین کو بہر صورت انصاف دلایا جائے گا۔‘‘
طاقت ور اے ایس آئی فیض اللہ کی گرفتاری کیسے عمل میں لائی گئی؟
عبید خان کو قتل کرنے کے بعد فیض اللہ فرار ہوگیا تھا، بالفاظِ دیگر پولیس سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا، لیکن عوام اور مقتول کے رشتہ داروں کے شدید دباؤ پر اے ایس آئی نے جرگے کے ذریعے گرفتاری دے دی۔
عبید خان کے رشتہ دار کیا کہتے ہیں؟
سوات کے پولیس سٹیشن بنڑ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالب علم عبید خان کے ماموں فریدون خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ قتل میں ملوث اہل کاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر انصاف میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا، تو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا جائے گا۔
اب تک کی کارروائی کا خلاصہ:۔
عبید خان قتل کیس میں چار پولیس اہل کاروں کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں سپیشل ٹیم کا انچارج اے ایس آئی فیض اللہ، ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ (ڈی ایس بی) کے تین اہل کار حضرت حسین، ابراہیم شاہ اور امجد خٹک شامل ہیں۔ مقدمہ کے مدعی مقتول عبید خان کے ماموں فریدون خان نے سوات جیل میں شناخت پریڈ کے بعد چار پولیس اہل کاروں کو قتل میں براہِ راست نام زد کیا ہے۔ عبید خان قتل کیس میں غفلت برتنے پر پانچ پولیس اہل کاروں کو معطل کیا گیا ہے، جس میں ایس ایچ اُو بنڑ پولیس سٹیشن ایاز خان، انچارج ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ (ڈی ایس بی) امتیاز خان، تھانہ بنڑ کا محرر، گیٹ پر موجود پولیس سنتری اور ایک ہیڈ کانسٹیبل سفیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سوات کے تمام ڈی ایس بی اہل کاروں کو ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ کے لیے نئے اہل کاروں کو تعینات کیا جائے گا۔
کیا ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ سوات (ڈی ایس بی) کے تمام سادہ کپڑوں میں ڈیوٹی کرنے والے اہل کاروں کو ڈیوٹی سے ہٹانا درست فیصلہ ہے؟
ڈی ایس بی اہل کار سادہ کپڑوں میں ڈیوٹی کرتے ہیں اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر ملزمان کی نشان دہی کرکے رپورٹ اعلا افسران کو ارسال کرنے کے بعد مذکورہ ملزمان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ تمام تجربہ کار اہل کاروں کو ہٹانے سے پولیس کی خفیہ معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ نئے اہل کاروں کے تعین سے خفیہ معلومات اکھٹا کرنے کے عمل پر برے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
عبید خان قتل کیس بارے آر پی اُو ملاکنڈ ڈویژن کا رول:۔
عبید خان قتل کیس کے لیے آر پی اُو ملاکنڈ ڈویژن سجاد خان نے ایس پی انوسٹی گیشن، شاہ حسن کی سربراہی میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ جے آئی ٹی میں ایس پی لوئر سوات رحیم حسین، ایس پی سپیشل برانچ پیر زر بادشاہ، ڈی ایس پی انوسٹی گیشن افسر زمان، ڈی ایس پی لوئر دیر فاروق جان اور ٹیکنیکل ٹیم کے انچارج گوہر شامل ہیں، جو نوجوان طالب علم عبید خان کے قتل کی تحقیقات کریں گے۔
کیا یہ سوات میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے؟
سوات بنڑ پولیس سٹیشن میں 6 ماہ قبل بھی ایک ملزم نے حوالات میں گلے میں پھندا ڈال کر خود کُشی کی تھی، لیکن ابھی تک اس خود کُشی کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ اس کے علاوہ سوات میں پولیس کے شہریوں پر تشدد کے مختلف واقعات تو رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن پولیس سٹیشن کے اندر نوجوان کو گولی مارنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ واضح رہے کہ سوات میں پانچ روز قبل سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے علاقہ لطیف آباد کے رہایشی نوجوان طالب علم عبید خان کو سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہل کاروں سے معمولی تلخ کلامی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں سوات کے پولیس سٹیشن بنڑ کے اندر اس کو گولی مارکر قتل کیا گیا تھا۔ عبید خان جہانزیب کالج سوات میں بی ایس کا طالب علم تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے