ترجمہ: قیصر نذیر خاورؔ (مرحوم)
(یہ فرانزکافکا کی تحریر ہے، جس کا مرحوم قیصر نذیر خاورؔ نے اُردو میں ترجمہ کیا ہے، مدیر)
پرومیتھیس کے بارے میں چار قصے مشہور ہیں۔
٭ پہلے کے مطابق، اسے کاکیشیا میں ایک چٹان کے ساتھ باندھا گیا تھا کہ اس نے خداؤں کو دغا دیتے ہوئے اُن کے راز انسانوں کو دے ڈالے تھے، اور خداؤں نے عقابوں کو اُس پر نازل کر دیا تھا، تاکہ وہ اُس کا کلیجہ کھاتے رہیں، جو دایمی طور پر پھلتا پھولتا رہتا تھا۔
٭ دوسرے کے مطابق، پرومیتھیس، چونچوں کی کلیجہ چیرنے والی درد سے مجبور ہوکر چٹان میں اندر اندر ہی دھنستا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُسی کا حصہ بن گیا۔
٭ تیسرے کے مطابق، ہزاروں سال کے عرصے نے اُس کی غداری کو بھلا دیا۔ خدا بھی بھول گئے، عقاب بھی اور خود اُس نے اپنے آپ کو فراموش کر دیا۔
٭ چوتھے کے مطابق، ہر کوئی اِس معاملے سے اُکتا گیا۔ خدا بھی اُکتا گئے، عقاب بھی تنگ آ گئے اور زخم بھی اکتاہٹ سے اتنا چور ہوا کہ اُس نے خود کو سی لیا۔
اب بس چٹان کا ڈھیر ہی بچا ہے جس کی کوئی توجیح نہیں پیش کی جاسکتی، لیکن ’’قصہ‘‘ تو توجیح پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا، کیوں کہ یہ سچائی کی تہہ کے نیچے سے نکلا ہوا تھا، لیکن اُس کا کیا کریں کہ یہ بھی بالآخر ناقابلِ توجیح بن کر رہ گیا ہے۔
’’پرومیتھیس‘‘ کافکا نے غالباً 1918ء میں لکھا تھا لیکن یہ پہلی بار "Beim Bau der Chinesischen Maue (1931)” میں شایع ہوا۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1933ء میں ’’وِلا‘‘ اور ’’ایڈون موئیر‘‘ نے کیا تھا اور یہ "The Great Wall of China. Stories and Reflections” میں شامل ہے۔
’’پرومیتھیس‘‘ یونانی دیومالا میں ایک ’’ٹائٹن‘‘ (Titan، اُلوہی مخلوق میں دوسرے درجے کا دیوتا) ہے، جس نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا اور اس کا خیرخواہ بھی ہے۔ اس نے اولمپس پہاڑ سے آگ چُرا کر انسان کو دی، جس کی پاداش میں زیوس (Zeus)، جو اولمپس پہاڑ کے خداؤں کا بھی خدا مانا جاتا ہے، نے اسے ’’کاکیشیا‘‘ میں کازبک پہاڑ پر ایک چٹان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے زنجیروں میں جکڑ دیا اور اُس پر عقاب چھڑوا دیا، جو اس کا کلیجہ ہر دن کھاتا رہا۔ رات میں پرومیتھیس کا جگر پھر سے نشو و نما پا جاتا جسے عقاب اگلے دن پھر سے نوچ کھاتا۔ مدتوں بعد یونانی دیومالا کے ہیرو ہرکولیس نے عقاب کو مار کر ’’پرومیتھیس‘‘کو عقاب کے عذاب سے نجات دلائی۔
یونانی دیومالا میں ہی ’’پرومیتھیس‘‘ بارے چار روایتیں ہیں…… جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کافکا نے بھی یہ کہانی اپنے انداز میں چار طرح لکھی ہے۔
( بحوالہ ’’عالمی ادب اور افسانچہ‘‘، مترجم ’’قیصر نذیر خاورؔ‘‘)