مجھے یہ تو یاد نہیں کہ سکول میں میرا پہلا دن کیسے گزرا تھا، لیکن دوسرا دن جیسے گزرا تھا وہ کبھی نہیں بھول پایا۔
لگتا ہے کہ سکول میں میرا پہلا دن اچھا نہیں گزرا تھا۔ اس لیے دوسرے دن جب سکول جانے کا وقت ہوا، تو مجھے اپنے سر، پیٹ، دل اور دماغ میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا…… لیکن اتنی سیریس حالت کے باوجود مجھے سکول جانے پر مجبور کیا گیا۔ جماعتِ ادنا میں زمین پر بیٹھے تھے۔ پاس ہی ایک بچہ رحمت علی تھا۔ وہ بہت صاف ستھرا اور پیارا تھا۔ اُس نے مجھے اپنے بستے کی چیزیں دکھائیں جن میں نئی نویلی کتابیں، ربڑ اور پنسل سب مجھے بہت اچھا لگا ۔ رحمت علی نے کہا کہ آپ کو جو بھی چیز چاہیے ہو، مجھے بتانا۔ وہ مجھ سے کئی دن سینئر تھا۔
اتنے میں استاد صاحب آئے۔ انھوں نے حاضری کا رجسٹر کھولا اور کہا، کسی کے پاس پن یا پنسل ہے۔ مَیں نے فوراً اونچی آواز میں کہا، جی ہاں! رحمت علی کے پاس ہے۔
رحمت علی اس پر مجھ سے ناراض ہوا۔ کہنے لگا کہ یہ استاد صاحبان جب کوئی چیز لیتے ہیں، تو پھر واپس کرنا یاد نہیں رکھتے۔
ایک دو گھنٹے بعد مجھے سخت اُکتاہٹ ہونے لگی۔ رحمت علی نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ اُٹھ کر کھڑے ہوجاؤ اور استاد سے کہو کہ مَیں نے غسل خانے جانا ہے۔ وہ تمھیں باہر جانے کی اجازت دے دیں گے۔
جوں ہی میں باہر نکلا، گویا پرندہ پنجرے سے آزاد ہوا ہو۔ کلاس کے کمرے تو لڑکوں سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ کلاسز برآمدوں میں جاری تھیں۔ اچانک مجھے برآمدے والی کلاس میں اپنے محلے کا ایک بچہ نظر آیا۔ مَیں تیر کی طرح اس کے پاس گیا بیٹھ کر علیک سلیک کرنے لگا۔ جوں ہی استاد کی نظر مجھ پر پڑی، اس نے کڑک دار آواز کے ساتھ مجھے ڈانٹا اور اپنی طرف بلایا۔ مَیں ڈر کے مارے بھاگ نکلا۔ استاد صاحب نے بھی میرے پیچھے دوڑ لگا دی۔ سکول کے صحن میں ایک راستہ درمیان سے گزرتا تھا، جس کے دونوں اطرف میں پھول اور پودے لگے ہوئے تھے۔ مَیں راستے کے ایک طرف تھر تھر کانپ رہا تھا۔ استاد صاحب راستے کے دوسرے طرف غیظ و غضب سے کانپ رہے تھے۔ وہ جب کیاری کے دائیں طرف سے میری طرف لپکتے، تو میں بائیں طرف نکل جاتا۔ جب وہ بائیں طرف کا رُخ کرتے، تو میں دائیں طرف بھاگ کر پناہ لیتا۔ یہ میری پانچ چھے سالہ طویل زندگی کا سب سے وحشت ناک دن تھا۔ اچانک سے دو چار رضاکار لڑکوں نے مجھے ہاتھ، پاوں، گردن کمر اور ہر جگہ سے کس کر پکڑ لیا اور استادِ محترم نے ڈنڈوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے نہ یہ سوچا کہ جسم کا کون سا اندام ڈنڈے کی زد میں آ رہا ہے اور نہ یہ سوچا کہ مجرم کی عمر صرف پانچ چھے سال ہے۔
شکر الحمدللہ، سکول میں نہ باقی اساتذہ نے کبھی ایسا سلوک کیا…… نہ کوئی دن ایسا خراب گزرا۔ اسی سکول میں مجھے بہترین دوست اور بہترین اساتذہ ملے۔ جن استاد صاحب نے مجھے مارا تھا، ا)ن کے بارے میں بھی بعد میں علم ہوا کہ وہ نہایت فرض شناس اور اچھے استاد تھے…… اور انھوں نے یہ پورا کام صرف فرض شناسی کے جذبے کے تحت کیا تھا۔
قارئین! اس تحریر کا مقصد آپ سمجھ چکے ہوں گے۔ بچوں سے نرمی کیجیے۔ بچپن میں نہیں، تو بڑے ہو کر ان کو سمجھ آجاتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
الحمدللہ، کئی سال تک بطورِ استاد کام کرنے کا موقع ملا، اب بھی موقع ملتا ہے، تو استاذی کرنے سے باز نہیں رہ پاتا۔ دوبارہ زندگی ملی، تو استاد ہی بنوں گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ استاد بنو، یا شاگر، یا ان دونوں کا خدمت گار۔
یومِ اساتذہ کے موقع پر روایتی پوسٹوں سے ہٹ کر بات کرنے کی خواہش ہے۔ پہلے تو اساتذہ باپ کے برابر ہوتے تھے۔ اب بہت سے اساتذہ میرے لیے بھائیوں اور بچوں کے برابر ہوگئے ہیں۔ اس لیے بزرگی جھاڑتے ہوئے ایک ٹپ دے رہا ہوں۔
اگر آپ کی کلاس میں کوئی دور دراز، پس ماندہ، یا دیہی علاقے سے آیا ہوا کوئی طالب علم ہے، یا کوئی طالب علم پڑھائی میں کم زور ہے، تو اس کے ساتھ خاص شفقت اور محبت سے پیش آئیں۔ بظاہر یہ پینڈو اور سادہ لوح دراصل بڑے قابل اور محنتی ہوتے ہیں۔ آپ کی تھوڑی سی اضافی توجہ اور شفقت اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتی ہے۔ وہ زندگی بھر آپ کی اس مہربانی کو بھول نہیں پاتا…… اور بدلے میں آپ کو خوشی اور اطمینان کا وہ احساس ملتا ہے، جو ناقابلِ بیان ہے۔
مجھے جب پرانے شاگرد ملتے ہیں، تو جس بات پر وہ سب سے زیادہ میرا شکریہ ادا کرتے ہیں، وہ یہ ہوتی ہے کہ سر، فُلاں موقع پر جب مَیں بہت مایوس تھا، تو آپ نے بڑا حوصلہ دیا تھا۔
اب سوچتا ہوں کہ اگر زندگی دوبارہ ملی، تو اپنے شاگردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے بات نہ کروں گا۔ ہمیشہ ان کی ہمت اور حوصلہ بڑھاؤں گا اور کبھی ان کو ڈانٹوں گا اور نہ شرمندہ کروں گا۔
ایک امریکی استانی سے چند ماہ انگریزی سیکھنے کی کوشش کی۔ اُس نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ ’’جواب غلط ہے!‘‘ ہمیشہ (غلط یا درست) جواب پر تبصرہ ’’شاباش‘‘، ’’بہت خوب‘‘، ’’بہترین‘‘ اور اس قسم کے الفاظ سے شروع کرکے پھر تصحیح کرتی اور یہ تاثر دیتی گویا میرا (غلط) جواب بھی دُرست ہے، لیکن اس سے زیادہ دُرست جواب بھی ہوسکتا ہے۔
دوسرا، وہ اتنی عزت اور احترام سے پیش آتی کہ ہمیں اپنی عزت کی خاطر پڑھائی پر توجہ دینا ہوتی۔
اسلامی یونیورسٹی میں عرب اساتذہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، تو حیران رہ گیا کہ یا رب! یہ لوگ تو سراپا تدریس ہیں۔ عربی کے نہایت محترم استاد سے ایک طالب علم نے شرارتاً پوچھا یا استاذ! رقص کا کیا مطلب ہے؟ سفید ریش استادِ محترم بھری کلاس کے سامنے ناچنے لگے اور فرمایا، اس کو رقص کہتے ہیں۔ اللہ ربِ کریم استاد وجیہہ سمیت تمام اساتذہ کو دنیا و آخرت کی بہترین زندگی سے نوازے، آمین!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔