افغان کون ہیں؟

تحقیق و تحریر: عبدالمعین انصاری
’’افغان‘‘ کے لغوی معنی افغانستان میں رہنے والے کے ہیں…… مگر عموماً یہ اصطلاح افغانستان میں پشتو بولنے والے قبایل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بعض اوقات پٹھانوں اور افغانوں کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے۔ افغان کی اصطلاح درانیوں اور ان متعلقہ قبایل کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہ محض نام کا فرق ہے۔ یعنی ایرانی نام ’’افغان‘‘ قدرتی طور پر مغربی قبایل کے لیے استعمال ہوتا ہے اورپھٹان کا اطلاق جو مقامی نام کی بدلی ہوئی ہندی شکل ہے اور اس کا اطلاق شرقی قبایل پر کیا جاتا ہے۔
پشتون مورخین کا دعوا ہے کہ افغان جلا وطن یہود نسل سے ہیں۔ ان کے مطابق طالوت کے مرنے کے بعد اس کی دو حرموں سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ حضرت داؤد نے ایک کا نام برخیا اور دوسرے کا نام ارمیا رکھا تھا۔ آصف، برخیا کا فرزند تھا جب کہ ارمیا کے بیٹے کا نام افغنہ تھا۔ عہدِ عتیق کی کتابوں کے تراجم میں آصف کا نام اصاف اور افغنہ کا ترجمعہ افگنہ کیا گیا ہے۔ افغنہ سے افغان بن گیا اور افغان کے تمام نجیب قبیلے اسی افغنہ کی نسل سے ہیں اور جب بخت نصر نے انہیں شام سے نکالا، تو بنی اسرائیل و بنی افغان غور کے نواحی پہاڑوں میں آباد ہوگئے۔ ان میں سے ایک گروہ عرب میں آباد ہوگیا۔ عرب کے لوگ انہیں بنی اسرائیل و افغان کہتے تھے۔
اس طرح کے دعوے جو بے سر و پا اور منتشر ہیں اور ان کی تاریخی ماخذ سے تصدیق نہیں، اور ان سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے بعض لوگوں نے انہیں یہود نسل مانتے ہوئے دوسری تاویلات پیش کی ہیں۔ مثلاً روشن خان کا کہنا ہے کہ جو قیدی بخت نصر یروشلم سے لایا تھا، یہ ابتدا میں موسیان اور سلیمانان کے نام سے یاد کرتے تھے اور کچھ مدت کے بعد یہ افغان کے نام سے موسوم ہوگئے۔ جب یہ لوگ خراسان پہنچے، تو انہیں افغان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ اوغان اور عبرانی لفظ ’’اب‘‘ جو اعزازی اور تعظیمی اسم ہے، سے نکلا ہے۔ یہ لفظ ’’اب‘‘ مقرر، بہادر اور نام ور کے لیے بنی افغان میں استعمال ہوتا تھا۔ مثلاً یواب، اط یشے، اخی اب۔ دمشق کے دریا کا نام ابانا جس کا قدیمی نام مہروی تھا۔ بنی اسرائیل میں بہت سے نام ور و منفرد لوگ تھے جن کے ناموں میں ’’اب‘‘ اعزاز کے طور پر شامل کیا گیا۔ اگرچہ یہ لفظ اب منفرد ہے لیکن جلا وطنی کے بعد دوسرے ملکوں خاص کر ایرانیوں نے جمع کے لیے یوں استعمال کیا : ابان، اباکان، اب گان، اب غان اور آخر میں عربی طرز پر افغان استعمال ہوا ہے۔
روشن خان کے بیانات سے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ افغانوں کے مورثِ اعلا کا نام افغنہ تھا…… مگر روشن خان نے کلمہ ’’اب‘‘ کے بارے میں جو جواز پیش کیا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ عہد نامہ عتیق سے کہیں بھی پتا نہیں چلتا کہ یہ کلمہ اعزازی اور تعظیمی کلمہ ہے۔ اگرچہ یہ ناموں میں استعمال ہوا ہے، لیکن کہیں بھی یہ بطورِ اعزاز کے استعمال نہیں ہوا۔ بھر روشن خان کا کہنا ہے کہ یہ پہلے موسیان اور سلیمانان کہلاتے تھے اور ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ روشن خان کی بات درست ہے، تو کیا وجہ تھی کہ انہیں ابان کے تعظیمی کلمہ سے پکارا گیا؟ جب کہ بنی اسرائیل غلام بن کر آئے تھے۔ ظاہر ہے یہ تمام دلایل تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں۔ بابل کی اسیری کا شمار گم شدہ قبایل میں ہوتا ہی نہیں۔ ان مورخین کے بیانات منتشر اور الجھے اور ان میں تضاد ہے۔ یہ تاریخ سے ماخذ نہیں، اس لیے اس کلمہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
سب سے پرانی شہادت ایک ایرانی کتبہ میں ہے، جو تیسری صدی عیسوی کا ہے۔ یہ کلمہ ابگان کی صورت میں ملتا ہے۔ پرفیسر احمد دانی کا کہنا ہے کہ کلمہ افغان، اوگان یا اباگان تیسری صدی عیسویں (عہدِ ساسانی) اور چھٹی صدی عیسوی میں ملتا ہے۔ ایرانیوں نے یہ کلمہ افغان استعمال کرنا شروع کیا، جو آج تک مروج ہے۔
ہندی ہیئت دان ’’ورمہ مہرا‘‘ کی کتاب ’’برہت سیمتہ‘‘ میں یہ کلمہ اوگانہ کی شکل میں آیا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد چینی سیاح ہیوانگ سانگ کی سوانح حیات میں یہ کلمہ ایپوکین ( اوگن ) کی شکل میں ملتا ہے جو کوہستان کے شمال میں آباد تھے۔ فریدون کے زمانے میں ایک مشہور اور نامور پہلوان اوگان تھا اور بہادر و دلیر لوگوں کو اس نام سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں مشہور بہادروں کو اوگان سے تشبیہ دی ہے۔ فردوسی نے یہ کلمہ اوغان دیا ہے۔ ابنِ بطوطہ ان کا ذکر ’’الافغان‘‘ کے نام سے کرتا ہے۔ تیمور نے اپنی تزک میں اوغانیوں کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ بدخشان سے واپس آرہاتھا۔ قلعہ ایری کے سردار شاہ اغوان کو قبیلہ کرکس کے سردار موسیٰ خان اوغان نے حملہ کرکے قتل کرڈالا، جس پر تیمور نے اپنی فراست سے قابو پالیا ۔
قدیم ایران کے ہخامنشی خاندان کے بادشاہ دارا اول ( چھٹی صدی عیسوی) نے کتبہ نقش رستم میں خود کو ایرانی کا بیٹا اور آریا کی اولاد سے موسوم کیا ہے، اس کتبہ میں آریہ کا تلفظ ’ ’اُرِئی‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے ابتدا میں میرا خیال تھا کہ اس کلمہ کا افغانستان کے علاقہ میں ’ ’اُرِیَ‘‘ ہوگا اور اس میں غان نسبتی کلمہ لگ کر اور غان ہوگیا اور کثرتِ تکرار سے ’’ر‘‘ خارج ہوگیا۔ اس طرح یہ کلمہ اوغان بن گیا، جو کہ افغان کے لیے ابتدا میں استعمال ہوتا تھا، مگر میں ترکوں کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا ہونا یقینی نہیں۔ یہ کلمہ اوغان، اوغہ سے نکلا ہے جس کی ’ گ ‘ اور ’ غ ‘ سے مختلف شکلیں ہیں۔
حدود العالم میں ہے کہ ننہار (ننگر ہار) موجودہ جلال آباد کا بادشاہ اپنے کو مسلمان کہتا ہے اور تیس بیویاں رکھتا ہے، جو کہ مسلمان، افغان اور ہندو ہیں۔ اس فقرے میں مسلمان کی تفریق معنی خیز ہے۔ اس جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ افغان مسلمانوں سے ہٹ کر ایک علاحدہ قومیت اور مذہب رکھتے تھے۔
نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی، مگر جلد ہی افغانستان پر ترک چھاگئے۔ کتاب الاغانی کے مطابق رود گرگان کے ترک، ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے۔ کتاب الاغانی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان اور مذہب اختیار کرلیا تھا۔ اس لئے ساسانیوں کے زمانے میں غالباً چھٹی صدی عیسوی میں ترک اس علاقہ کو فتح کرچکے ہوں گے، جو ترک قبایل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے۔ ان میں ایک قبیلہ غز تھا۔ جسے اغوز بھی پکارا جاتا تھا اور اسی نسبت سے بلاد اسلام میں ترکی النسل قبایل کو اغوز کہا جاتا تھا۔ اغوز یا غزْ قبیلے نے دوسرے ترک قبایل کے ساتھ غالباً چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے درمیان اسلام قبول کرلیا تھا۔
غالب امکان یہی ہے کہ افغانستان میں رہنے والے ترک قبایل جنہیں اوغوز ( جمع کے صیغہ میں) اور فردِ واحد کو ’’اوغہ‘‘ پکارا جاتا تھا۔ یہ اوغہ رفتہ رفتہ ان قبایل کے لیے پکارا جانے لگا، جنہوں نے مقامی ثقافت، زبان اور مذہب اختیار کرلیا تھا۔ یہ کلمہ اوغہ جس کی جمع اوغان تھی، رفتہ رفتہ تمام مقامی قبایل کے لیے پکارا جانے لگا اور لوگ بھول گئے کہ یہ ترک نژاد قبایل کے لیے یہ کلمہ استعمال ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے تمام پشتو بولنے والے قبایل کو افغان بولا جاتا ہے۔ جب کہ قدیم قبایل ان سے اپنا ایک الگ نسلی تشخص بتاتے ہیں۔ اگرچہ یہ تفریق منتشر اور الجھی ہوئی ہے۔ آج بھی ہزارہ قبایل پٹھانوں کو اوغہ کہتے ہیں۔
ایران میں گان کا کلمہ اکثر نسبت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً گرگان…… جب کہ افغانستان میں نسبت کے لیے اس کی ترکی شکل میں یہ کلمہ غان آیا ہے۔ یہ شہروں اور علاقوں کے ناموں میں عام استعمال ہوا ہے۔ مثلاً لمغان، شبرغان، پغان، دامغان اور کاغان وغیرہ۔ اس طرح یہ کلمہ اوغہ 228غان 236 اوغان ہوگیا اور یہ اوغان رفتہ رفتہ افغان ہوگیا۔ کیوں کہ یہ اکثر زبانوں میں ’ ’و‘ ‘، ’ ’ف‘ ‘ سے بدل جاتا ہے۔
حوالہ جات:۔
٭ ابن بطوطہ۔ سفرنامہ ابن بطوطہ، جلد اول۔
٭ڈاکٹر شیر بہادر پنی۔ تاریخ ہزارہ۔
٭ تیمور۔ تزکِ تیموری۔
٭ سدھیشور ورما، آریائی زبانیں۔
٭ دائرۃ المعارف اسلامیہ۔
٭ روشن خان۔ تزکرہ۔
٭ نعمت اللہ ہراتی، مخزن افغانی۔
٭ شیر محمد گنڈا پور۔ تاریخ پشتون۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے