ہماری اسٹیبلشمنٹ کو جب محسوس ہوا کہ امریکہ عمران خان کو پاکستان کا حکم ران دیکھنا چاہتی ہے، تو وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور اپنے ترازو میں ملک کا نفع و نقصان تولنے لگی۔ بشری تقاضوں کے مطابق ان کو نفع کا پلڑا بھاری نظر آیا…… جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ملکی سالمیت کے مسئلے میں قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی صورتِ حال پیش آئی، تو ہم مل کر اس کا مقابلہ کرلیں گے اور اپنے ملک کو بچالیں گے۔ نتیجتاً نقصان کے پلڑے کا سنجیدہ تجزیہ نہیں کیا گیا اور نفع والے پلڑے کے ثمرات گن گن کر جشن منانے شروع کردیے۔ نفع کے ثمرات میں سے یہ تھا کہ چوں کہ خان امریکہ کا پالتو ہے، وہ اس پر ڈالروں کی بارش کردے گا اور ساتھ ساتھ وہ برطانیہ عظمیٰ کا داماد ہے، تو یہودی سسرال بھی خان کے لیے اپنے خزانوں کے قفل کھول دے گا۔ اس کے علاوہ خان آکسفرڈ کا فاضل ہے اور دنیائے کرکٹ کا درخشاں ستارہ ہے، جب یہ ہمارا وزیر اعظم بنے گا، تو دنیا کو ہمارا ایک مثبت امیج جائے گا۔
قارئین! یہاں یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ خوشی اس بات پر تھی کہ کم از کم ان بھٹوؤں اور شریفوں سے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی، خصوصاً ن لیگ سے…… کیوں کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اندر اینٹی نواز شریف کا جتھا اکثریت میں تھا…… جو مشرف کے باقیات میں سے تھا…… اور جو سمجھتا تھا کہ یہ نیازی جس کے آگے پیچھے کوئی ہے، نہ یہ سیاست کے اسرار و رموز سے واقف ہی ہے، نہ اس کے پاس کوئی منظم جماعت ہے…… لہٰذا ہم اس کو وہ تیر بناسکتے ہیں کہ جس سے ہم اندرونی اور بیرونی کئی شکار کرسکتے ہیں۔ حالاں کہ اسٹیبلشمنٹ کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ ہم اس کی جماعت کو منظم ہونے دیں گے اور نہ سیاست کے اسرار و رموز نیازی پر واضح ہی ہونے دیں گے…… جس میں سے پہلی بات کی تو مکمل پاس داری کی گئی اور اِدھر اُدھر سے لوٹے اکھٹے کرکے اور مین سٹریم میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر ایک تاریخی مہم چلائی گئی اور یوں نیازی کو اقتدار کی نشست پر بٹھایا گیا…… لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ امریکہ کا یہ پالتو پاکستان میں اکیلا نہیں…… یہاں تو ان کی پوری فرنچائز موجود ہے…… جسے جماعتِ اسلامی کہتے ہیں۔
اگر ہم قاضی صاحب مرحوم اور نیازی کے استاد اور شاگرد کے رشتے سے قطعِ نظر کر لیں اور یا امریکہ کے لیے جماعتِ اسلامی کی پرانی خدمات کو بالائے طاق بھی رکھ دیں…… لیکن اس سے تو ہم انکار نہیں کرسکتے کہ پورے پانچ سال پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے پختونخوا میں کندھے سے کندھا ملا کر حکومت کی…… اور اس دوران میں پی ٹی آئی ڈی چوک میں فحاشی کے نت نئے ریکارڈ بناتی رہی۔ صوبے میں جماعتِ اسلامی کے ساتھ حلال اور اسلامی حکومت بھی کرتی رہی اور مجال ہے کہ ایک بار بھی جماعتِ اسلامی نے احتجاجاً یہ کہا ہو کہ نیازی اگر تو ڈی چوک میں لڑکیاں نچوائے گا، تو ہم صوبائی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔
عزیزانِ من! پورے پانچ سال جماعتِ اسلامی پی ٹی آئی کے نااہلوں کو کارِ حکومت سکھاتی رہی۔ اس وقت انہوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی ساری کتابیں غلاف میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے ذمہ صرف یہ ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ ہر حال میں نیازی کا ساتھ دینا ہے۔ اور جب مشہورِ زمانہ ’’پانامہ سکینڈل‘‘ لیک ہوا، تو اپنے آقا کے ایک وفادار کے طور پر امیرِ جماعتِ اسلامی عدالت پہنچ گئے اور امیرِ جماعت ہی نے وہ کیس فائل کیا تھا جس میں صرف نواز شریف نااہل ہوا۔ اس کا کریڈیٹ بڑی چالاکی سے نیازی نے اپنے نام کرلیا اور امیرِ جماعت کو بدلے میں اپنے آقاؤں سے کیا ملا؟ یہ بھی ملاحظہ کیجیے۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں بلکہ یہ بالکل سکرپٹ کے مطابق تھا کہ پاکستان کی اعلا عدلیہ کے چیف جسٹس نے امریکی ایما پر عدالت کی کارروائی کے دوران میں یہ کلمات کہے کہ ’’اگر آئینِ پاکستان کے ترازو میں موجودہ سیاست دانوں کو تولا جائے، تو ان میں صرف عمران خان اور امیرِ جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق صاحب صادق اور امین قرار پائیں گے۔ باقی سب گھر جائیں گے۔‘‘ تو کیا واقعی پورے ملک میں صادق و امین صرف یہ دو سیاست دان ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کیا یہ اتفاق ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد پوری قوم نے دیکھ لیا کہ وہ جج ملک میں فساد برپا کرکے اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا۔
بہر حال آپ جماعتِ اسلامی کا موجودہ کردار بھی دیکھ لیجیے۔ جب پوری اپوزیشن بشمول اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے لیے متحد ہوئی، تو آپ نے دیکھ لیا کہ جماعتِ اسلامی ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ الٹا اپوزیشن کے اس فعل کی مذمت کرتی تھی۔ تو ہم جیسے طالب علم اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں؟ یہی ناں کہ دونوں کا ’’آقا‘‘ ایک ہے۔
عزیزانِ من! وہ دوسری بات جو اسٹیبلشمنٹ نظر انداز کر گئی تھی کہ یہ نیازی جن کے داماد ہیں، انہوں نے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال تک اس خطے پر حکم رانی کی ہے، ان کو پتا ہے کہ یہاں کس وقت کون سا چورن بکتا ہے اور وہی ہوا…… نیازی نے ساڑھے تین سال کھل کر مذہب کا چورن بیچا اور عوام کو خوب بے وقوف بنایا…… جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس ایک غلطی سے ہمیں کتنا نقصان ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نیازی نے معیشت کا جو برا حال کیا، وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ ڈالر کے پر بھی کٹ جائیں گے۔ مہنگائی کا جن بھی دوبارہ بوتل میں بند ہو جائے گا۔ ملک میں ترقیاتی منصوبے پھر سے شروع ہو جائیں گے۔ روزگار کی شرح بھی بڑھ جائی گی۔ ادارے بھی فعال ہو جائیں گے…… لیکن نیازی نے جو اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، اس کا اِزالہ مشکل ہے۔ نیازی نے جو نفرتوں کا بیچ بویا ہے، اس کی جڑیں ملک کے طول و عرض تک پھیل چکی ہیں۔ نیازی نے جس قدر سیاست کو آلودہ کیا ہے، اب ممکن ہی نہیں کہ اس میں کسی شریف النفس انسان کے دامن پر دھبا نہ لگے…… اور سب سے بڑھ کر جو مذہبی اصطلاحات کو مذاق بنایا جاچکا ہے جس سے میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں یعنی ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ایک بندہ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ پڑھے گا اور پھر گالیاں دے گا، جھوٹ بولے گا، بہتان لگائے گا اور ’’امر بالمعروف‘‘ کے نام پر بھرے مجمع میں لڑکیاں نچائے گا…… اور ’’ریاستِ مدینہ‘‘ توبہ توبہ کیا اس ریاست کو آپ ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے وزارتِ خارجہ کے دفتر کا دروازہ ایک فاحشہ لڑکی اپنی ننگی ٹانگ سے لات مار کر کھولتی تھی۔ کیا اس ریاست کو آپ ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا وزیرِ داخلہ پریس کانفرنس میں ایک پارٹی کے چیئرمین کو بلو رانی پکار کر عشق وشق کی باتیں کرتا تھا۔ یہ دو مثالیں ریاست کے ذمے داران کی ہیں۔ ان کے باقی وزیر اور مشیر تو بہت گئے گزرے ہیں۔
عزیزانِ من! نیازی نے ہمارے معاشرے سے ادب اور احترام بالکل ختم کردیا ہے۔ آپ جب چاہیں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر قرآن کی آیات پڑھ کر کوئی بھی گفتگو کرسکتے ہیں۔ آپ ادب کی قید سے آزاد کردیے گئے ہیں۔ آج آپ بلا خوف کسی بھی مقدس ہستی کے ساتھ اپنے لیڈر کو تشبیہ دے سکتے ہیں۔ آپ پر سے احترام کی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ آپ اپنے مخالف پر کسی بھی قسم کا جھوٹا الزام لگا سکتے ہیں۔ کوئی آئین، کوئی قانون آپ نہیں روک سکتا۔
نیازی نے آج ایسا گروہ تیار کیا ہے کہ ان کے لیے نیازی ہی آئین اور قانون ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ نیازی سچا اور ان کے مخالفین جھوٹے ہیں ۔ نیازی ایمان دار اور ان کے مخالفین چور اور ڈاکو ہیں۔
بہر حال ذرایع بتاتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب واقعی منظم ہوکر نیوٹرل ہو چکی ہے جو بالکل درست فیصلہ ہے اور اپنی صفوں کو نیازی کی حمایتیوں سے صاف کرچکی ہے اور اس کے یہ اقدامات قابلِ قدر ہیں۔ یہ بھی یقینی ہے کہ آیندہ ان کی طرف سے نیازی کو کوئی ریلیف نہیں ملے گی…… لیکن نیازی کو مسلط کرنے کے گناہ میں جماعتِ اسلامی برابر کی شریک ہے۔ میری گزارش ہے کہ جماعت کا ایک ایک کارکن کوشش کرے اور اپنی قیادت کی توجہ اس طرف مبذول کرائے کہ نیازی کو مسلط کرکے ہم جس ظلمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں، اس پر پروردگارِ عالم کے حضور توبہ کریں اور آیندہ ایسا لایحۂ عمل تشکیل دیں جس سے کفارہ بھی ادا ہو جائے۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔