ابلاغ کی جنگ اور پروپیگنڈا کی طاقت

بابا اشفاق احمد خان رحمۃ اللہ علیہ اُردو ریڈیو اور اور ٹی وی ڈرامے کا ایک معتبر نام اور فنِ داستان گوئی کا ایک عظیم حوالہ ہے…… جن کا نام حقیقی معنوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
مشہور ٹی وی پروگرام ’’زاویہ‘‘ میں وہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعے بڑے بڑے راز افشا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں دو بچوں کی کہانی سنائی جو آپس میں کسی مدعے کو لے کر تکرار کررہے تھے۔ بابا اشفاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک بچہ جس کے چہرے پر داغ، دھبے اور دانے تھے…… وہ دوسرے بچے کو جس کا چہرہ روشن اور صاف تھا…… طعنے دے رہا ہے کہ اپنی شکل کو آئینے میں دیکھو، کتنا برا لگ رہا ہے۔ جب کہ روشن اور صاف چہرے والا بچہ اس کی بات کو جھوٹ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ بابا نے درمیان میں کھڑے ہوکر لڑائی رکوائی اور اس بچے سے پوچھا کہ ’’بیٹا، اس بچے کا چہرہ تو بالکل صاف ہے…… جب کہ داغ، دھبے اور دانے تو تمہارے چہرے پر ہیں…… پھر اس دروغ گوئی کا مطلب؟‘‘ جواب میں وہ بچہ پُراعتماد لہجے میں کہنے لگا کہ ’’باباجی! اسے کہتے ہیں ابلاغ کی جنگ اور پروپیگنڈا کی طاقت۔ مَیں پہل نہ کرتا، تو اس نے یہی اعتراض مجھ پرکرنا تھا۔ لہٰذا مَیں نے پہل کی…… اور اسے دفاع پر مجبور کیا…… اور بہترین دفاع پہل کرنا ہوتا ہے۔‘‘
یہ کہانی بچپن میں سنی تھی۔ ٹھیک طرح سے یاد بھی نہیں۔ البتہ مرکزی خیال اورلبِ لباب ہمیشہ سے یاد رہا۔ جب بھی ملکی سیاست اور خاص کر ’’ٹاک شوز‘‘ اور سوشل میڈیا دیکھتا ہوں، تو یہ کہانی یاد آجاتی ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریکِ عدمِ اعتماد اور ’’انصافی خط‘‘ کے حوالے سے جاری بحث و مباحثے نے ایک مرتبہ پھر یہ کہانی یاد دلائی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ’’دی فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ (ایف اے ٹی ایف) کی خاطر قانون سازی کرنے والے اور سٹیٹ بینک، آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوانے والے دھڑلے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’انہوں نے عالمی استعماری قوتوں اور خاص کر امریکہ کو ’واضح انکار‘ کیا…… لہٰذا اپوزیشن نے امریکہ سے ساز باز کرکے ان کی حکومت گرانے کے لیے عدمِ اعتماد کی تحریک لائی۔‘‘
مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا کہنے والے حکومتی مشیروں میں اکثریت ان استعماری قوتوں یعنی امریکہ اور یورپی ممالک کے شہری (یعنی دوہری شہریت رکھنے والے) ہیں۔
اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتِ وقت کو اس سازش کاتین ہفتے قبل معلوم ہوا اور انہوں نے مقابلہ کرنے اور ’’سازشی عناصر‘‘ کے خلاف بغاوت کے مقدمے دایر کرنے کی بجائے خود اپنی ہی حکومت ختم کی…… اور اپنی جیت اور دوسرے کے ہار کا اعلان کیا…… اور اسے ’’سرپرائز‘‘ کا نام بھی دے دیا۔
تحریکِ عدمِ اعتماد کے جواب میں چوہدری فواد نے تقریر کی…… اور اپوزیشن کو غدار ٹھہراکر ڈپٹی سپیکر کو’’رولنگ‘‘ دینے کی استدعا کی۔ جواب میں ڈپٹی سپیکر نے تحریکِ عدمِ اعتماد میں بیرونی ہاتھ شامل ہونے کی بنیاد پر اسے مسترد کیا۔ اُسی دن وزیراعظم نے صدرِ مملکت کو ایڈوائس بھیجی…… اور قومی اسمبلی تحلیل کروائی۔
اگلے دن صدرِ مملکت نے ’’غداروں‘‘ کے سربراہ یعنی اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کرنے کا کہا۔ کاغذ پر لکھ دیا جائے، تو یہ معاملہ سیدھا سادہ ہے…… لیکن جب اسے چرب زبانوں کے حوالے کیا جائے، تو یہ ایک ’’عالمی سازش‘‘ سے کسی طرح بھی کم نہیں۔
ایک طرف کو دیکھا جائے، تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ’’سپر پاور‘‘ بننے جارہا تھا…… اور روس کے ساتھ مل کر یورپ اور امریکہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا آغاز ہونے والا تھا…… لیکن سازش رچائی گئی اور حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔
دوسری طرف کو دیکھا جائے، تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے معصوم بچوں سے ان کی باری پر بلا چھینا گیا ہو۔ معاملات اتنے سادہ بھی نہیں…… جیسا اپوزیشن والے بتا رہے ہیں…… اور اتنے گھمبیر بھی نہیں جیسا ’’انصافی دوست‘‘ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پروپیگنڈا میں اعلا مقام پر فایز ’’انصافی دوست‘‘ کَہ رہے ہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت ختم کرکے امریکہ کی سازش ناکام بنا دی۔
اب یہ امریکی سازش آخر تھی کیا؟
یہی نا کہ ’’عمران کی حکومت کو ختم کیا جائے۔‘‘ اب خود ہی خاتمہ کردیا…… تاکہ ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔‘‘
ویسے عجیب اور ’’نازک صورتِ حال ‘‘ تو یہ ہے کہ جن منحرف اراکین نے پیسے لے کر اس سازش کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، ان کو حکومت نے بارہا پیسوں سمیت واپس آنے کی اپیلیں کیں…… یعنی غداروں کو پیشکش…… فیا للعجب!
دوسری طرف جب ان کی درخواستوں کو ردی کے ٹوکری میں پھینکا گیا، تو پھر ان کے خلاف ’’پروپیگنڈا بریگیڈ‘‘ سرگرم ہوگیا۔ نور عالم خان کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے باپ نے انہیں عمران خان کے خلاف جانے پر عاق کردیا۔ حالاں کہ نور عالم خان کے والد بزرگوار کو فوت ہوئے تقریباً دس سال گزرگئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ’’سراج قاسم تیلی‘‘ سے منسوب ایک بیان دھڑا دھڑ شیئر ہو رہا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف کو واضح پیغام پہنچادیا ہے کہ اگر شریف برادران، زرداری اور فضل الرحمان دوبارہ قیادت میں آئے، تو وہ اپنے کاروبار کو بیرونِ ملک شفٹ کردیں گے۔ حالاں کہ سراج قاسم تیلی کو فوت ہوئے سال سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا ہے۔
فرانس سرکار کی سرپرستی میں شانِ رسُول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منظم گستاخی ساری کاینات نے ننگی آنکھوں سے دیکھی۔ پاکستانی قوم چاہتی تھی کہ بدلے کی تو ہماری حیثیت نہیں…… کم از کم فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکال باہر کیا جائے۔ وزیرِاعظم میدان میں آئے اور قوم کو سمجھایا کہ فرانس کو ناراض کیا، تو صرف فرانس ہی نہیں پورا یورپ ناراض ہوجائے گا اور پھر ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ پابندیوں کے ساتھ ساتھ کثیر زرِمبادلہ سے محروم ہونا پڑے گا۔ لہٰذا صبر سے کام لیا جائے۔
دوسری طرف یہی شخص کہہ رہا ہے کہ اس نے امریکیوں کو ’’ایبسولوٹلی ناٹ‘‘ بولا، قومی وقار اور خودداری کا سودا نہیں کیا…… اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ امریکہ سے مستعار ایک درجن سے زاید مشیر (دوہری شہریت والے) اس قوم پر مسلط کرنے والا کہتا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اسے اس کی سزا دی گئی ہے ۔ پہلے تو یہ ماننے والی بات نہیں…… اور بفرضِ محال اس مان بھی لیا جائے، تو کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ ہمارے حکم ران اپنی ذاتی انا اور قومی مفاد کی خاطر امریکہ تک کو نا کرسکتے ہیں…… لیکن حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاطر امریکہ کے چیلے ’’فرانس‘‘ کے سامنے اُف تک نہیں کرسکتے۔ یہ ’’پروپیگنڈا وار ‘‘نہیں، تو اور کیا ہے؟
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے عام آدمی کے دسترس میں آنے کے بعد ’’پروپیگنڈا‘‘ کی اہمیت بے انتہا بڑھ گئی ہے۔
سوشل میڈیا شترِ بے مہار کی مانند کچھ بھی لکھنے اور پوسٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہاں شریفوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اور پردہ داروں کو ننگا کیا جاتا ہے۔ یہاں پر مخالفین کو ’’غدار‘‘ اور ’’کافر‘‘ کہنے پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں۔ یہاں جھوٹی اور خودساختہ کہانیوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم بالعموم اور پختون بالخصوص جذباتی واقع ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف اور عمران خان باوجود کئی خامیوں (بلنڈرز) کے آج بھی سب سے زیادہ مقبول ہیں۔
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے…… البتہ سوشل میڈیا لایکس، کمنٹس اور شیئرز کی صورت میں اسے پَر ضرور عطا کرتا ہے۔ کل ملاکر حقیقت یہی ہے کہ یہ دور ابلاغ اور پروپیگنڈا کی طاقت کا ہے…… اور ’’انصافی‘‘ اس فیلڈ کے شہسوار ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن والوں کی عافیت اس میں ہے کہ یا تو خاموش ہوجائیں، یا انصافی بن جائیں…… اور ان کی طرح بن کراینٹ کا جواب سے پتھر سے دیں۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے