حضرت محمدؐ کا لباس

قرآن وسنت کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات و اطوار کے لحاظ سے حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے۔ کیوں کہ لباس میں اصل جواز ہے۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت نمبر 32 میں اللہ تعالا نے بیان فرمایا کہ لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالا نے حرام قرار دیا ہے……!
لیکن ہمیں اپنے لباس میں حتی الامکان نبی اکرمؐ کے طریقہ کو اختیار کرنا چاہیے اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اللہ تعالا نے نبی اکرمؐکے طریقہ کو کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا: ’’تم سب کے لیے رسول اللہ کی ذات بہترین نمونہ ہے۔ (سورۃ الاحزاب 21)
اللہ تعالا نے لباس کے متعلق قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس بنایا، جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقوا کا لباس ہے۔ (سورۃ الاعراف 26)
اس آیت میں اللہ تعالا نے تقواکا لباس پہننے کی تعلیم دی ہے اور لباس التقوی سے مراد وہ لباس ہے جس میں شرم وحیا ہو اور لباس کے متعلق حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔
٭ شرعی لباس کے چند بنیادی شرائط:۔ نبی اکرمؐ کے اقوال وافعال کی روشنی میں علمائے کرام نے لباس کی بعض شرائط تحریر کی ہیں:
1:۔ مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ، پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے، جس سے ہاتھ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ یہاں لباس کا بیان ہے نہ کہ پردے کا، کیوں کہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔
2:۔ لباس نبی اکرمؐ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس۔
3:۔ ایسا تنگ یا باریک لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضا نظر آئیں۔
4:۔ مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
5:۔ مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوشبو والا نہ ہو۔
6:۔ مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپر جب کہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
7:۔ کفار اور مشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔
٭ آپؐ کا پسندیدہ لباس، سفید پوشاک:۔ امتِ مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرمؐ سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف 2حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
پہلی حدیث،’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو۔ کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔‘‘ (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ)
دوسری حدیث:۔ ’’حضرت سمرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، سفید لباس پہنو۔ کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (نسائی)
٭ رنگین لباس کے متعلق آپؐ کے ارشادات وعمل:۔ نبی اکرمؐ زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے۔ اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپؐ نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا۔ کیوں کہ آپؐ کی قمیص اور تہبند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐنے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا، تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔ (مسلم )
حضرت ابی رِمثہ رفاعہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؐ کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ (ابو داود، ترمذی)
اس طرح حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپؐ کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ مَیں نے کبھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں دیکھا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
(وضاحت): بعض روایات میں وارد ہے کہ آپؐ نے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جب کہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرمؐنے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین و علما نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں۔ البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔
٭ آپؐ کی قمیص:۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسولِ کریمؐ کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ (ترمذی، ابو داود)
آپؐ قمیص کے جو اوصاف احادیث میں مذکور ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: آپؐ کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ آپؐ کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ آپؐ کی قمیص کی آستین عموماً پنجے تک ہوا کرتی تھی، کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔ آپؐ کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔
٭ آپؐ کا اِزار (یعنی تہبند اور پائے جامہ):۔ اِزار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ تہبند کا استعمال فرماتے تھے۔ آپؐ کا تہبند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابۂ کرام بھی عموماً تہبند استعمال کرتے تھے اور آپؐ کی اجازت سے پائے جامہ بھی پہنتے تھے۔ حضرت ابوسعید الخدریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہیے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (ابو داود، ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بطورِ تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالا قیامت کے دن اس کی جانب نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (بخاری )
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، لٹکانا تہبند ، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطورِ تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالا قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (ابو داود، نسائی)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جو حکم نبی اکرمؐنے پائے جامہ کے متعلق فرمایا وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔ (ابو داود)
البتہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، جو شخص بطورِ تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالا قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپؐ نے فرمایا، وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا، وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ (ابوداود، ترمذی)
٭ آپؐ کی ٹوپی:۔ حضورِ اکرمؐ عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ علامہ ابن القیم ؒ اپنی کتاب ’’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپؐ عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے۔ آپؐ عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپؐ ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔
مشہور محدث وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علما کا بھی یہی موقف ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا غلط ہے۔ سعودی عرب کے علما کا فتوا بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرمؐ کی سنت اور محدثین ومفسرین و فقہا و علما و صالحین کا طریقہ ہے۔ نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۃ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے۔ لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا، تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالا زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔
٭ آپؐ کا عمامہ:۔ آپؐ کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپؐ کا عمامہ عموماً چھے سات ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ فتحِ مکہ کے دن نبی اکرمؐ اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی)
حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے آپؐ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ (ترمذی)
آپؐ کے سفید عمامہ کا تذکرہ متعدد احادیث میں وارد ہوا ہے۔
٭ آپؐ کا جبہ:۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے۔ اور فرمایا کہ یہ اللہ کے رسولؐ کا جبہ ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں، تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرمؐ اسے پہنا کرتے تھے۔ (مشکوۃ )
آپؐ نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
٭ آپؐ کے لباس میں درمیانہ روی:۔ رسولِ اکرمؐ نے اعلا وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہبند نکالا۔ پھر فرمایا کہ نبی اکرمؐ کی روح مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔ (بخاری)
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرمؐ نے فرمایا، اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو، تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ۔ امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو، حتی کہ اس کو پیوند لگالو۔ (ترمذی )
یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالا پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ (ترمذی)
یعنی اگر مال اللہ تعالا نے دیا ہو، تو اچھے کپڑے پہننے چاہئیں۔ حضرت معاذ بن انس ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، جس شخص نے اللہ تعالا کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا، حالاں کہ وہ اس پر قادر تھا، تو کل قیامت کے روز اللہ تعالا تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا، اس کو پہنایا جائے گا۔ (ترمذی)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرمؐ کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضرِ خدمت ہوا۔ آپؐ نے فرمایا : کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟ (نسائی، مسند احمد)
غرض یہ کہ حسبِ استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے اور صاف ستھرا لباس پہننا چاہیے۔
٭ دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت:۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرمؐ جب قمیص زیبِ تن فرماتے، تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی)
اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔
قارئین، اللہ تعالا ہم سب کو نبی اکرمؐ کی پاک سنتوں کے مطابق لباس پہننے والا بنائے، آمین!
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔