گول دائرے میں ڈھیر سارے لڑکے بیٹھے ہوتے اور جو کھڑا ہوتا، دائرے کے گول گول چکر کاٹتا اور ساتھ یہ آواز بھی لگاتا: ’’شاپین پینکے، پین پینکے، غاڑہ د منگی، ٹوپئی د فیرنگی، چرمخکئی یو۔‘‘ ساتھ ہی دائرے میں بیٹھے ہوئے لڑکے باآواز بلند کہتے: ’’ایو۔‘‘ اس کے بعد دائرے کے گول چکر کاٹنے والا لڑکاپھر آواز لگاتا: ’’گوڈے راکہ وڑو لہ زم، چج راکہ پیکو لہ زم، غوا می شتہ لوڑ می نشتہ۔‘‘ اور ایک بار پھر گول دائرے میں بیٹھے ہوئے لڑکے باآوازِ بلند کہتے: ’’خہ اوشو۔‘‘
قارئین کرام! محولہ بالا مکالمہ اس وخت ادا کیا جاتا جب لڑکے بالے ایک بڑے سے گول دائرے میں اُکڑوں بیٹھتے۔ ایک لڑکے کے ہاتھ میں ٹوپی ہوتی اور وہ دائرے کے گول چکر کاٹ کر ذکر شدہ مکالمہ ادا کرتا۔
یہ کھیل لڑکے اکثر سکول میں ڈرل یا تفریح کے وقت کھیلا کرتے یا پھر عصر کے وقت گاؤں کے کسی کھلے میدان میں کھیلتے۔ محولہ بالا مکالمہ میں فیرنگی کی ٹوپی کو طنزاً یاد کیا جاتا۔ مذکورہ کھیل لڑکے اور لڑکیاں سکول اور گاؤں کے کھلے میدانوں میں ایک ساتھ کھیلتے۔ اس کے علاوہ لڑکیاں اکثر اسے گھر کے اندر بھی کھیلتیں۔
مذکورہ کھیل کچھ یوں کھیلا جاتا کہ تمام کھلاڑی ایک جگہ اکھٹے ہوجاتے اور ایک بڑے گول دائرے کی شکل میں اکڑوں بیٹھ جاتے۔ ایک لڑکا ٹوپی ہاتھ میں لے لیتا اور دائرے کے گول چکر کاٹنا شروع کر دیتا۔ ساتھ ہی یہ مکالمہ شروع کر دیتا کہ’’شاپین پینکے، پین پینکے، غاڑہ د منگی، ٹوپئی د فیرنگی، چرمخکئی یو۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے لڑکے باآواز بلند کہتے: ’’ایو۔‘‘ اس کے بعد دائرے کے گول چکر کاٹنے والا لڑکاپھر آواز لگاتا: ’’گوڈے راکہ وڑو لہ زم، چج راکہ پیکو لہ زم، غوا می شتہ لوڑ می نشتہ۔‘‘ اور ایک بار پھر گول دائرے میں بیٹھے ہوئے لڑکے باآوازِ بلند کہتے: ’’خہ اوشو۔‘‘ لڑکا دائرے کے چکر کاٹتے ہوئے ذکر شدہ مکالمہ باآواز بلند دوہراتا۔ اس دوران میں کسی ایک کھلاڑی کے پیچھے ٹوپی خاموشی کے ساتھ رکھ دیتا اور چکر کاٹنے کا عمل جاری رکھتا۔ اگر کھلاڑی جان جاتا کہ ٹوپی اس کے پیچھے رکھی گئی ہے، تو وہ ٹوپی اٹھا لیتااور ٹوپی رکھنے والے کھلاڑی کے پیچھے دائرے کے گرد دوڑ لگا دیتا۔ اگر پیچھا کرنے والا کھلاڑی، ٹوپی رکھنے والے کو جا لیتا، تو اس پر ٹوپی سے پے در پے وار کرتا۔ اور تب تک اسے مارتا رہتا جب تک وہ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ بیٹھ نہ جاتا۔ جب اولذکر کھلاڑی بیٹھ جاتا، تو ثانی الذکر محولہ بالا عمل اختیار کرتا، یہاں تک کہ وہ کسی اور کھلاڑی کے پیچھے ٹوپی نہ رکھ دیتا۔ اس طرح کھیل آگے جاری رہتا۔
(نوٹ:۔ درج بالا سطور شاہ وزیر خان خاکیؔ، کی تحقیقی تصنیف ’’پہ سوات کی د ماشومانو زڑی لوبی‘‘ سے ایک اقتباس کا اُردو ترجمہ ہیں، جسے شعیب سنز بک سیلرز اینڈ پبلشرز نے چھاپا ہے۔ کتاب، شعیب سنز جی ٹی روڈ کے علاوہ ہر اچھے بک سٹال سے حاصل کی جاسکتی ہے، مترجم)