مولا بخش، بہادر شاہ ظفرؔ کا ہاتھی

انسان، ربِ کائنات کا پروردہ ہے۔ لہٰذا اسی کا مطیع و فرماں بردار ہوکر وفاداری کا حق ادا کرتا ہے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ انسان اس بارے جانور سے بھی کم تر اور نکما ثابت ہوا ہے کہ جانور جس مالک کا کھاتا ہے، مرتے دم تک اس کا وفادار رہتا ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں وفا شعاری کا ایک سچا واقعہ نذرِ قارئین ہے۔
بہادر شاہ ظفر خاندانِ مغلیہ کے آخری حکمران تھے۔ ان کی عمر کا آخری حصہ بڑا دردناک رہا۔ انگریزوں نے انہیں گرفتار کیا۔ ان کے سامنے ان کے عزیز قتل کیے گئے اور انہیں قید و بند کی تاریکیوں میں پھینک ڈالا گیا۔
کہتے ہیں کہ اُن کا ایک مشہور و معمر ’’مولا بخش‘‘ نام کا ایک ہاتھی تھا۔ اُس نے کئی بادشاہوں کو سواری دی تھی۔ اس ہاتھی کی عادتیں بالکل انسان جیسی تھیں۔ قد و قامت میں ایسا بلند و بالا کہ سرزمینِ ہند میں اس کی مثال نہ تھی بلکہ بیٹھنے کی حالت میں بھی کھڑے ہوئے ہاتھ کے برابر نظر آتا اور خوبصورتی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ سوائے خدمتی کے کسی دوسرے آدمی کو پاس نہ آنے دیتا تھا۔ جس دن بادشاہ کی سواری ہوتی تھی۔ اس سے ایک دن پہلے چوب دار جاکر حکم سنادیتا کہ مولا بخش! کل تمہاری نوکری ہے، تیار اور ہوشیار ہوجا۔ بس اس وقت سے وہ تیار ہوجاتا۔
جس وقت نقار خانہ کے دروازے سے بادشاہ برآمد ہوتا۔ یہ چلا کر سلام کرکے خود ہی بیٹھ جاتا۔ حرکت بھی نہ کرتا۔ جب بادشاہ تیار ہوجاتا اور فوج دار اشارہ کردیتا، تو مولا بخش فوراً تیار ہوکر کھڑا ہوجاتا۔
مختصراً یہ کہ جب سواری سے فرصت پائی، تو پہلے کی طرح مست ہوجاتا۔ اس ہاتھی کو قدرت نے یہ کمال عطا کیا تھا۔
سقوط دہلی کے بعد جب شاہی خیل خانہ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا، تو مولا بخش نے دانا پانی چھوڑ دیا۔ فیل بان نے جاکر حاکم کو اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ انگریز حاکم کو یقین نہ آیا۔ فیل بان سے کہا کہ ہم جاکر خود خوراک کھلائیں گے۔ وہ خود شیرینی یعنی مٹھائیاں اور کھجوریاں ساتھ لے کر ہاتھی کے تھان پر پہنچا اور خوراک کا ٹوکرا اس کے سامنے رکھا۔ ہاتھی نے غصے میں آکر ٹوکرے کو اس طرح کھینچ مارا کہ اگر کسی انسان کو لگتا، تو اس کا کام تمام ہوجاتا۔ ٹوکرا دور جاگرا اور شیرینی بکھر گئی۔ حاکم کہنے لگا، ہاتھی باغی ہے۔ اسے نیلام کردو۔ چناں چہ اُسی روز صدر بازار میں لاکھڑا کیا گیا اور نیلامی کی بولی لگی۔ کوئی خریدنے والا نہ تھا۔ آخر ایک پنساری نے ڈھائی سو روپے کی بولی پر ختم کرکے اسے خریدلیا۔
فیل بان نے اُسے کہا کہ چل بیٹے، تمام عمر بادشاہوں کی نوکری کی۔ اب تقدیر پھوٹ گئی کہ اب ہلدی گرہ بیچنے والے کے دروازے پر جانا پڑا۔ یہ سنتے ہی ہاتھی کھڑے قد سے زمین پر گر پڑا اور مرگیا۔
مولا بخش جو شاہی خیل خانہ میں سانس لے کر عمر کا بہت بڑا حصہ کاٹا تھا اور وفاداری اور وفا شعاری کا مظہر تھا، ظاہر ہے اس کو کسی دوسرے کا دروازہ اچھا نہیں لگا۔
قارئین! جب ایک بے زبان جانور کے اندر اتنی عمدہ خصوصیت پائی جاتی ہے، تو ایک انسان کو تو بدرجۂ اولا وفاداری کی مثال پیش کرکے اپنے مالکِ حقیقی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انسان پروردگارِ عالم کا پروردہ اور اشرف المخلوقات ہے اور خدا نے اسے عقل و شعور سے بھی نوازا ہے۔ اپنے اس رُتبے کو ہی مدِ نظر رکھ کر غیر کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے اور غیر کے بھروسے پر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔
بقولِ مرزا غالبؔ
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا