ماضی کے اپوزیشن لیڈر عمران خان اور آج کے وزیر اعظم عمران خان کی شخصیت میں واضح فرق ہے۔ خان صاحب کے اڑھائی سالہ دورِ اقتدار نے پاکستان کے عوام میں ان کی شخصیت، قابلیت اور صلاحیت کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ عوام ان کے بلند بانگ دعوؤں اور عملی اقدامات کی حقیقت بھی جان چکے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے سیاسی جلسوں کے دوران میں عوام کو سنہرے دور کے خواب دکھلائے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے کسی ایک دعوے پر بھی عمل درآمد کی بجائے، روایتی سیاست دانوں سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ’’یوٹرن‘‘ لیتے نظر آتے رہے ہیں۔
عوام، بالخصوص اپوزیشن کے حلقوں میں تو ایک عرصہ سے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور گڈ گورننس کے فقدان پر برسرِ اقتدار طبقے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، مگر اب اڑھائی سال بعد خود وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ہی وزرا کے کام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کہا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ تمام وزرا کو عوامی مسائل پر توجہ دینا ہوگی اور اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔ ورنہ کابینہ کے اجلاس میں فائلوں کے بڑے بڑے پلندے لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
مگر اب ملک کے نوجوانوں کو خان صاحب پر پہلے جیسا اعتماد ہرگز نہیں۔ کیوں کہ عمران خان نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی پہلے 100 دن کا جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے اور 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا اعلان تھا۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری دفاتر، مختلف سروسز، ایجنسیوں اور بین الاقوامی نوعیت کے سرکاری اداروں کی ملازمتیں کہیں بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی آبادی کے ہر فرد کو ان میں کھپایا جاسکے، لیکن سرمایہ دارانہ یا ملی جلی معیشت والے ملکوں میں حکومتیں زراعت، صنعت، کاروبار اور خدمات کے شعبوں میں ایسے سازگار حالات اور مواقع فراہم کرتی ہیں، جن سے لوگوں کو نجی شعبے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ روزگار میسر آسکے، مگر روپے کی بے قدری، ٹیکسوں میں بے انتہا اضافہ، بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں ہر چند دن کے بعد اضافہ نے نجی شعبے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ جس کے نتیجے میں صنعتی یونٹ روز بند ہورہے ہیں اور زرعی شعبہ بھی زبردست خسارے کا شکار ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی تباہی اور زوال کا سبب بدعنوانی، کرپشن اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار ہے۔ وہ بدعنوانوں کو کوئی رعایت نہیں دیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ بدعنوانی نے قومی اداروں کو تباہ کردیا ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قومی دولت لوٹنے والوں اور اداروں کو تباہ کرنے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوسکا۔ البتہ غریب مزدوروں کو بے روزگار کرکے سزا دی جارہی ہے۔
عمران خان کی پالیسیوں نے جو ماحول پیدا کیا ہے، اس سے روزگار کے مزید مواقع کیا پیدا ہوتے، جو لوگ روزگار سے لگے ہوئے تھے، وہ بھی اب بے روزگاروں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ جب کہ وہ حکومت تو ایسی پالیسیوں کو علانیہ عملی جامہ پہنانے کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی جو سابق ادوارِ حکومت میں غربت، مہنگائی، روٹی روزگار کے گھمبیر ہوتے مسائل سے عوام کی گلو خلاصی کرانے اور ریاستِ مدینہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت تشکیل دینے کے دعوؤں، وعدوں، منشور اور ایجنڈا کے تحت عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے اقتدار میں آئی ہو۔
عمران خان اور ان کی کابینہ کے دعوؤں اور عملی اقدامات کی بدولت انہوں نے قوم کا اعتماد کسی حد تک کھودیا ہے، اور قوم مطالبہ کررہی ہے کہ ملک سے غربت و مہنگائی ختم کی جائے، انہیں ریاستِ مدینہ کے خواب نہ دکھائے جائیں۔ کیوں کہ آپ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے، آپ نہ تو قول کے سچے ہیں، نہ ملک میں نظامِ مصطفی کا نفاذ چاہتے ہیں اور نہ سودی نظام کا خاتمہ ہی چاہتے ہیں۔
اسلام کے سنہری اصولوں پر کاربند رہنے سے قائم ہونے والی ریاستِ مدینہ توبس سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا۔
عمران خان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی، ’’یوٹرن‘‘ لینا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے۔ اس لیے کہ ’’یو ٹرن‘‘ جھوٹ کا دوسرا نام ہے، وعدہ خلافی بھی ایک بڑی برائی ہے۔
عمران خان ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ وہ خودکشی کرلیں گے، مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اقتدار ملنے کے بعد وہ نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ اب وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کیوں کی؟ یہ وعدہ خلافی ہے اور یہ بھی ایک برائی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی عمل میں سست روی اور فیصلوں میں تاخیر سے جو مسائل سامنے آ رہے ہیں، مختلف وزارتیں ان کی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتیں۔ انہیں عوام کی مشکلات دور کرنے کے لیے صحیح فیصلے کرکے ان پر عمل درآمد کروانا ہوگا، تاکہ پاکستان کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔