فنِ آتش بازی اور تاریخ

سلطنتِ مغلیہ کے فرماں روا ’’نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ رنگیلا‘‘ کو ایک دفعہ کھجلی کی شکایت ہوئی۔ اطبا اس دور میں گندھک بطورِ علاج تجویز کرتے تھے جس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ جلد کی بیماریوں کو دور کردیتی ہے۔ دہلی کے قریب ریاست الور کے راستے میں سوہنا اور کراچی کے موضع منگا پیر، ان دونوں مقامات پر پانی کے ایسے چشمے ہیں جس کا پانی قدرتی طور پر گرم اور گندھک آمیز ہے۔ اس پانی میں غسل کرنے سے خارش دور ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر بادشاہ کو اس قسم کے بدبودار پانی سے نہلایا جاتا، یا جسم پر گندھک آمیز مرہم کی مالش کی جاتی، تو نازک مزاج رنگیلے بادشاہ کو ناگوار گذرتا۔ اس لیے شاہی حکیموں نے ہنگامی طور پر تجربات کرکے اس کا علاج آتش بازی تجویز کیا، جس میں حکمت یہ تھی کہ بارود تین چیزوں کا مرکب ہے یعنی شورہ، گندھک اور کوئلہ۔ جس کے لیے دہلی کے مشہور آتش باز ’’لالہ ہردیال جی‘‘ کو حکم دیا گیا کہ وہ طرح طرح کی آتش بازی کافی مقدار میں قلعہ میں لائیں۔ چناں چہ وہ لائی گئی اور کئی گھنٹوں تک چھوٹتی رہی۔ بادشاہ اس تماشے میں محو رہا اور آتش بازی کا گندھک آلودہ دھواں رنگیلے بادشاہ کے جسم کو برابر چھوتا رہا۔ کئی دفعہ یہی کیا گیا، یہاں تک کہ دھوئیں کے اثر سے بادشاہ کی خارش دور ہوگئی اور وہ اتنے خوش ہوئے کہ قلعے میں آتش بازی کی رسم قائم کردی۔
عزیزانِ من، آتش بازی کا فن بہت ہی قدیم ہے اور یہ معلوم کرنا قطعی محال ہے کہ اس کا مؤجد کون ہے، اس کی ابتدا کب ہوئی، اور آتش بازی کی صحیح تعریف کیا ہے؟ البتہ اس ضمن میں یہ عام اعتقاد کہ آتش بازی کی ایجاد بارود کی بدولت ہوئی، نہایت تعجب خیز ہے۔ کیوں کہ ہندوستان اور چین میں شورہ، پوٹاشیم نائٹریٹ بکثرت پایا جاتا تھا۔ زمانۂ قدیم میں لوگ اس پوٹاس کی مدد سے جو ایک خاص مقدار میں خیموں کے سامنے الاؤ پر چھڑکی جاتی تھی، گوشت وغیرہ بھونا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ بات بالکل قرینِ قیاس ہے کہ آگ پیدا کرنے کی اس معمولی سی ترکیب سے آتش بازی کے کسی اولین مؤجد کو اپنے ابتدائی کیمیائی تجربات کرنے کا شوق پیدا ہوا ہوگا۔ اس کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہوگی کہ پوٹاس کی وجہ سے آگ خوب بھڑکتی اور چمکتی ہے، اور جب اس نے کسے بھڑکتے ہوئے مادّے کو پوٹاس کے ساتھ ملایا ہوگا، تو انجامِ کار اسے فتیلے کا استعمال بھی معلوم ہوا ہوگا۔ آتش بازی کا یہ مرکب معلوم کرنے کے بعد ظاہر ہے مزید تجربے ہوئے ہوں گے، جن میں ایک تجربہ بانس کی نلکیوں پر بھی ہوا ہوگا۔ کیوں کہ اغلب یہی ہے کہ فنِ آتش بازی کی ابتدا چین یا ہندوستان سے ہوئی ہے، جہاں بانس کی نلکیاں خاص طور پر مستعمل تھیں، جس کو آج کل نال کہا جاتا ہے۔ یہ آتشیں نال جن کے قطر چھے انچ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، اب تک چین اور جاپان میں رائج ہے۔ بہرحال جب وہ آتشی مرکب کو نال میں بھرنے کی حد تک کامیاب ہوگئے، تو قیاس کہتا ہے کہ ان تجربات کے دوران ان لوگوں کو ضرور کوئی چھوٹا موٹا دھماکا یا کسی مرکب کے بے ساختہ بھڑک اٹھنے اور پھٹ جانے کا حادثہ پیش آیا ہوگا، جس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوا ہوگا کہ نال کے ذریعے کوئی گولا بھی پھینکا جاسکتا ہے۔ چناں چہ ضرورت کے پیشِ نظر بھک سے اڑ جانے والے مادّہ یا مرکب کو معلوم کرنے کے لیے بلآخر وہ بارود کی تحقیق و ایجاد میں کامیاب ہوئے ہوں گے۔
عزیزانِ من، یہ اعتقاد رکھنا کہ آتش بازی کی ایجاد بارود کی رہین منت ہے، غلط ہے۔ آتش بازی کی ایجاد فی الاصل صرف اس دریافت پر منحصر ہے کہ پوٹاس سے شعلے کو بھڑکنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ البتہ اس میں شبہ نہیں کہ بعد میں بارود ہی آتش بازی کا جزو اعظم بن گئی۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کیجیے کہ بارود کے لیے لازم ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی ’’شورہ، گندھک اور کوئلہ‘‘ بالکل اوزان کے مطابق ہو، لیکن اس کے برعکس آتش بازی کے مرکب پوٹاس اور کوئلہ میں اوزان کی قید نہیں۔
آتش بازی جسے مؤرخینِ یورپ ’’گریک فائر‘‘ یعنی آتشِ یونان، جب کہ اہلِ عرب ’’روغنِ نفط‘‘” یا ’’زراقات‘‘ کہتے تھے۔ اس وقت یہ پٹرول اور مٹی کے تیل سے موسوم ہے۔ اس کے علاوہ مصطگی، گندھک، روغن بکساں، لاکھ، موم، بغیر بجھا ہوا چونا، گوند اور افیون وغیرہ کو بھی آتشی اشیا ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔
ابتدائے عہدِ اسلام کے آتشی اسلحے کچھ اس قسم کے تھے مثلاً ’’تانبے اور سیسے کی پچکاریاں‘‘ جن میں روغنِ نفط بھر کر بڑی لڑائی کے وقت قلعہ یا شہر کی فصیل پر سے دشمن کی طرف پھینکتے تھے، اور جب بحری جنگ مقصود ہوتی تھی، تو تانبے کی ایسی پچکاریاں جن کے دہانے اژدھوں، مگر مچھوں اور شیروں کی سی مہیب وضع قطع کے ہوتے جہازوں کے چاروں طرف لگا دی جاتیں، جنہیں دیکھتے ہی دشمن کے اوسان خطا ہو جاتے تھے۔ ’’لوہے اور پتھر کی دیگچیاں‘‘ جن میں نکیلی اور تیزدھار والی چیزیں اور روغن نفط بھر کر منجنیق کے ذریعے پھینکے جاتے تھے ۔ ’’دبابیس‘‘ ایک قسم کے آہنی اور آتشی آلات جن کو گھوڑوں کی زین پر کس کر دشمن کی صفوں میں چھوڑ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ پتھر کے گولے، آتشی نیزے، آتشی تیر اور برچھے وغیرہ جنہیں جنگ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آتشی تیر اور نیزے کڑکتے،چمکتے اور شعلہ فشانی کرتے دشمن پر جاگرتے، جس کی دہشت واضطراب کا منظر شاہِ فرانس جولوئی نہم کے ہمراہ صلیبی جہاد کے لیے فلسطین آنے والے مشہور مؤرخ ’’ژاں ویل‘‘ کچھ ان الفاظ میں ذکر کرتا ہے:’’یہ آگ رات کو برسائی جاتی، تو سارا کیمپ روشن ہوجاتا، لوگ گھبرا کر اوندھے منھ گر پڑتے، آستینوں میں منھ چھپا لیتے، بے کسی اور بد حواسی کے عالم میں دعا کرتے ۔ خدایا بچا!‘‘
عزیزانِ من، آتشِ یونان یا روغنِ نفط ہی کی بدولت بارود کا نسخہ حضرتِ انسان کے ہاتھ لگا۔ پھر جوں جوں سائنسی ایجادات نے ترقی کی، توں توں بری، بحری اور فضائی تینوں جنگوں میں بارود طرح طرح سے بے تحاشا استعمال ہونے لگی۔ سابقہ آلاتِ حرب کا کوئی معقول مصرف اور قدر و قیمت باقی نہ رہی۔ ان کے بجائے بندوقیں، توپیں، مشین گنیں، ٹینک، بمبار ہوائی جہاز، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس اور ایٹم بم جیسی تباہ کن چیزیں ایجاد ہوگئیں، اور آتش بازی محض ایک کھیل اور تفریح کا سبب بن کررہ گئی۔ شادی، بیاہ، مذہبی تہوار، جشنِ آزادی اور فتح کے موقع پر تفننِ طبع کے لیے اس کی نمائش ہونے لگی۔ چناں چہ نوروز کے جشن پر اہلِ فارس، ہولی دیوالی کے تہواروں پر ہندو اور شبِ برات کے موقع پر مسلمان خوب بڑھ چڑھ کر آتش بازی میں حصہ لیتے ہیں، یہاں تک کہ تختِ دہلی کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں جب سلطنتِ مغلیہ کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا، قلعہ میں تیسرے پہر کے وقت شہزادوں اور شہزادیوں کو آتش بازی تقسیم ہوتی تھی، اور دھوم دھام سے آتش بازی کا آغاز قلعہ ہی سے ہوتا تھا۔ انگریزوں نے بھی دربارِ شاہی کی تقریب میں لندن کے کرسٹل پیلس کے مشہور آتش باز میسرز ٹی ڈی بروک اینڈ کمپنی کو ولایت کی آتش بازی دکھانے کے لیے دہلی بلایا، اور دہلی کی کئی آتش بازوں کو مقابلے کی دعوت دی۔ دہلی والوں نے آتش بازی کے دو مینڈھے بنا کر الگ الگ کھڑے کیے، جب ان میں آگ لگا دی گئی، تو دونوں آپس میں لڑنے لگے، یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار بھگایا۔ مقابلے میں یورپ والوں نے ایسی چرخیاں چھوڑیں جن میں ایڈورڈ ہفتم اور ملکہ الیگزنڈر وغیرہ کی شکلیں نمودار ہوئیں۔
اس ضمن میں مسٹر اے سینٹ ایچ بروک کی کتاب ’’پائرو ٹیکنکس‘‘ سے ایک تصویر کا قلمی خاکہ ملاحظہ فرمائیں، جو برٹش میوزیم لندن کی یادگار اور اٹھارویں صدی عیسوی کے مغل سکول آف آرٹ کا ایک نادر شاہکار ہے۔ تصویر کے پس منظر میں رات کا وقت دکھایا گیا ہے۔ چاند بدلی میں آیا ہوا ہے۔ بائیں سمت ایک وسیع سبزہ زار ہے جہاں آتش بازوں کا ہجوم ہے۔ جابجا انار چھوٹ رہے ہیں جیسے سرو کے درختوں میں کسی نے آگ لگائی ہو۔ درمیان میں ایک چشمہ خراماں خراماں رواں ہے۔ پانی میں کشتیاں پڑی ہوئی ہیں جن میں آتش باز سوار ہیں۔ وہ بھی آتش بازی چھوڑ رہے ہیں۔ پیش منظر میں سطحِ دریا سے ایک کافی بلند قطعۂ زمین پر ایک دل کش چمن کھلا ہوا ہے۔ چمن کے وسط میں ایک خوبصورت بارہ دری ہے جس کے قریب ایک چوبچۂ آبی کے سامنے ایک مغل شہزادہ اور شہزادی پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں۔ شہزادے کی پشت پر ایک داسی بھی محو تماشا نظر آتی ہے۔ چوبچے کے قریب زمین پر ایک دو شاخہ بتی دان رکھا ہوا ہے جس میں موم بتیاں آتش بازی چھوڑنے کے لیے روشن ہیں۔ قصہ مختصر، مسٹر کانڈر اپنی کتاب ’’لیٹن کنگڈم آف یروشلم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آتشِ یونانی کا راز وسطِ ایشیا کے مغلوں اور یونانیوں کو مدت دراز سے معلوم تھا۔
عزیزانِ من، افسوس اس بات پر ہے کہ یورپ والے فنِ آتش بازی کے ذریعے بارود تک اور بارود کی بدولت دنیا کے اقتدار تک پہنچ گئے اور مغل حکمران فنِ آتش بازی کو تفننِ طبع کے لیے یا زیادہ سے زیادہ اپنی خارش دور کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔