ہدایت کار اسکارٹ برنز کی فلم ’’دی رپورٹ‘‘ کی ریلیز کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ تنقید کی زد میں آئے تھے۔
’’دی رپورٹ‘‘ نائن الیون واقعے کے تناظر میں فلمائی گئی ایک ایسی فلم ہے، جس میں امریکی سی آئی اے اہلکار وں کی جانب سے مبینہ نائن الیون کے واقعے کے بعد باز پُرس کے نام پر تفتیشی مقامات پر ایذا رسانی کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ نائن الیون کا مبینہ واقعہ آج تک ایک’’پہیلی‘‘ بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے کئی دستاویزی فلموں سمیت متعدد تحقیقاتی اداروں نے اپنی رائے و تجارب کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ جس میں اکثریت کا یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ مبینہ طور پر امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ہی کارستانی تھا۔ تاہم اس بات سے قطعِ نظر کہ فریقین میں کس کا مؤقف درست یا غلط ہے، اہم ترین یہ ہے کہ مبینہ نائن الیون واقعے کے بعد سی آئی اے اہلکاروں نے جس طرح باز پُرس کے نام پر زیرِ حراست لیے گئے افراد، بالخصوص مسلمانوں پر حراستی مقامات پر بہیمانہ تشدد کیا، اسے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے درست اقدام قرار دیا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں فلم سامنے آنے کے بعد ردعمل میں لکھا کہ ان لوگوں کو دہشت گرد ثابت کریں جنہیں سی آئی اے کے اہلکار ایذائیں دے رہے ہیں۔ مائیک پمپیؤ نے دعویٰ کیا کہ بُرے لوگ دہشت گرد ہیں نہ کہ وہ لوگ جو سی آئی اے میں اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مائیک پمپیؤ سی آئی اے کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ان کا یہ ردعمل غیر متوقع نہیں کہلایا گیا۔ کیوں کہ جس طرح سی آئی اے نے مبینہ نائن الیون واقعے کے بعد مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے۔
ایذا رسانی کے مناظر پر مبنی فلم ’’دی رپورٹ‘‘ امریکی پالیسی و سی آئی اے کے سفاکانہ کردار کو منکشف کرتی ہے کہ ان کے لیے ہر وہ اقدام جائز ہے، جسے امریکہ درست سمجھتا ہے۔ یہ عدم برداشت کا ناقابلِ تصور نظریہ ہے کہ امریکہ اپنے نظریات کے لیے ہر وہ قد م کسی بھی وقت، کسی کے بھی خلاف اٹھا سکتا ہے، جو اُس کے فروعی مفادات کو فروغ دیتے ہوں۔ اس موقع پر فلم پر تبصرہ یا تجزیہ کرنا مقصود نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کا مائنڈ سیٹ کا دوبارہ جائزہ لینا ہے جو کسی بھی غلط اقدام کو جائز قرار دے کر جبر کو مسلط کرتا ہے۔
امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف سی آئی اے کا رویہ اور ایذا رسانی کی رپورٹس پوشیدہ نہیں رہیں۔ اسی طرح عراق اور افغانستان میں بدنامِ زمانہ جیلوں میں زیرِ حراست قیدیوں کے ساتھ جس قسم کا تشدد کیا جاتا رہا۔ اس کے منکشف ہونے کے باوجود امریکہ کی ڈھٹائی دراصل فرعونیت کا استعارہ بن کر سامنے آئی کہ امریکہ ایک بدمست ہاتھی ہے جو اپنے مفادات کے راستے میں آنے والی ہر شے کچلنے کو تیار ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کی تباہی کے لیے جو کھیل رچایا، اور پھر شطرنج کے مہروں کی طرح اپنے حلیف ممالک کو استعمال کیا، وہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔
آج بھی امریکہ اپنے مفادات کے لیے خطے میں مختلف چالیں چل رہا ہے۔ اس سے حلیف و حریف بخوبی واقف ہیں، تاہم کچھ مجبور ہیں تو کوئی غلام۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤکا مائنڈ سیٹ آج بھی وہی ہے جو2011ء میں تھا۔ وہ آج بھی جھوٹ کو سی آئی اے کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اسی جھوٹ کا کاسہ لے کر عراق کو تباہ و برباد کیا،اور افغانستان کی سرزمین میں اتنا بارود بھر دیا کہ دنیا بھر کی جنگوں میں بھی اس قدر بے رحمانہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہوا۔ پاکستان، امریکہ کی پالیسیوں سے براہِ راست متاثر ہوا اور آج بھی معیشت زبوں حالی اور ملکی سلامتی اور بقا خطرے اور سازشوں کا شکار ہے۔
مائیک پمپیؤ امریکی پالیسیوں کے لیے چاہے جتنے جواز تراش لیں، لیکن زیرِ حراست مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا تشدد روا رکھا گیا، اس پر ’’دی رپورٹ‘‘ ہی نہیں بلکہ تاریخ کے سیاہ باب کئی عشروں تک لکھے جاتے رہیں گے۔خود امریکہ انتہا پسندی کی اُس گرفت میں ہے جہاں پاکستان، افغانستان یا کسی دوسرے مسلم اکثریتی ممالک سے زیادہ خود امریکن شہری اپنے ہم وطنوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو یہ جاننے کی ضرورت زیادہ ہے کہ امریکہ میں نسل پرستی اور انتہا پسندی کے رجحانات میں خود اس کے شہری کیوں زیادہ ملوث ہیں؟ اس کی وجوہ کیا ہیں کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے شہری داعش جیسی تنظیموں میں بھی جاتے ہیں اور آئے روز اسکولوں سمیت عوامی مقامات پر فائرنگ کرکے بے گناہ انسانوں اور طلبہ و طالبات کی جانیں لیتے ہیں۔
امریکی معاشرہ عدم برداشت کے اُس دہانے پر پہنچ چکا ہے، جس کی فصل خود امریکی سیکورٹی اداروں نے رکھی اور آج کی نسل اُسے کاٹ رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ، ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کی متلون مزاجی کے سبب انہیں دنیا میں سب سے زیادہ امن کو خطرہ پہنچانے والے کا رہنماقرار دیا گیا۔
جرمنی میں ہونے والے ایک سروے "YouGov” کے نتائج کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور شمالی کوریا کے لیڈر کم یونگ ان سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے افراد کا ماننا تھا کہ صدر ٹرمپ، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اور چینی صدر شی جن پنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سروے کا اہتمام نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی جانب سے کیا گیا تھا۔ سروے کے مطابق ان پانچ عالمی رہنماؤں میں سے صدر ٹرمپ دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ امریکی اعلیٰ حکام کا رویہ دنیا کے امن کے لیے خطرے کا سبب ہے۔ ان کی سوچ اور نظریے نے ایسی پالیسیاں ترتیب دی ہوئی ہیں، جس سے اقوامِ عالم کے کئی ممالک جنگوں کا شکار ہیں، اور جہاں جہاں امریکی افواج موجود ہیں، وہاں زیرِ حراست افراد کے خلاف وہی رویہ روا رکھا گیا ہے، جو نائن الیون کے مبینہ واقعے کے بعد رکھا گیا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی تک رکا اور تھما نہیں۔ پالیسی ساز ادارے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کن طریقوں پر عمل پیرا ہیں، اس پر مکمل غور وفکر کی ضرورت ہے۔
امریکہ کی اصلیت کے کئی خدوخال تو مکمل منکشف ہوچکے ہیں، تاہم نوجوان نسل کو دعوتِ فکر دینے کی اشد ضرورت ہے۔ امریکی چیرہ دستیوں کا شکار مسلم امہ اور بالخصوص پاکستان ہی کیوں ہورہا ہے ؟ امریکہ کے اس عمل کا جائزہ بہرحال لینا چاہیے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔