یہ ہے دو ریاستوں کے مابین فرق

1960ء کا زمانہ تھا۔ ریاستِ سوات میں میاں گل عبدالحق جہانزیب والئی سوات حکمران تھا۔ میں اس وقت ایک نو عمر لڑکا اور چوتھی کلاس کا طالب علم تھا۔ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ میں باہر نکلا، تو ایک اجنبی شخص کو دروازے پر موجود پا یا۔ اس نے پوچھا، ’’لڑکے! اپنے گھر والوں سے معلوم کرو کہ اگر گھر میں بجلی لگوانی ہے، تو ہم تمہارے گھر میں بجلی لگا دیں گے۔‘‘ مَیں نے اپنی والدہ کو بتایا، تو انہوں نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے۔ اس کو کہو کہ ہمارے گھر میں بجلی لگادے۔‘‘ تھوڑی دیر میں ہم نے پردہ کرکے اس شخص کو گھر کے اندر بلالیا اور اس نے مختصر وقت میں فٹنگ کرکے دو کمروں میں ایک ایک بلب اور برآمدے میں ایک بلب لگا دیا۔ چالیس یا بچاس روپے لے کر چلا گیا اور ہمارا گھر بجلی کے چراغوں سے روشن ہوا۔ ہم کبھی اپنے گھر اور کبھی بجلی کے ان بلبوں کو دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔ گاؤں میں چند لوگوں کے سوا زیادہ تر لوگوں نے بجلی لگوانے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ہم اپنا گھر کرایہ پر نہیں لینا چاہتے۔ یہاں تک کہ گاؤں کے خان نے بھی اسی سوچ اور خیال کے تحت بجلی لگوانے سے انکار کیا ۔
اس سے پہلے لوگ مٹی کے تیل سے دیے جلاتے تھے، اور ذرا صاحبِ استطاعت لوگ لالٹین استعمال کرتے تھے۔ ان میں بھی جرمنی کی بنی ہوئی لالٹین پائیدار اور پاک صاف روشنی کے لئے مشہور تھی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کتنے سادہ، آسان اور بغیر محنت و کوشش کے ایک بنیادی سہولت ہمیں ہماری دہلیز پر مہیا کی گئی۔ نہ درخواست اور تصدیقی بیان حلفی فارموں کا پلندہ، نہ واپڈا لائن مین کی لیت ولعل اور رشوت، ہمیں خبر بھی نہ ہوئی، ہمارے دروازے پر میٹر بھی لگ گیا اور گھر بھی روشنی سے منور ہوا۔
آپ جانتے ہیں۔ میاں گل عبدالودود عرف بادشاہ صاحب کی حکمرانی سے پہلے سوات میں باقاعدہ حکومت نہیں تھی۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار ، آزاد اور اپنی اقدار و روایات پر کاربند تھا۔ دو ایک مرتبہ قبائل اس بات پر متفق بھی ہوئے کہ ایک باقاعدہ حکومت ہونی ضروری ہے اور اس کے لیے ستھانے کے سید خاندان سے ایک دو افراد بھی بلا کر اور ان کو بادشاہ تسلیم کرکے اس کا باقاعدہ آغاز بھی کیا گیا، لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوئے یا پیدا کر دیے گئے کہ میاں گل عبدالودود ریاست سوات کے بادشاہ بنا دیے گئے اور تقریباً زیادہ تر قبائل ان کی حکمرانی پر متفق ہوگئے۔ اختلاف رکھنے اور مخالف عناصر کو سائڈ لائن کیا گیا۔ پھر بادشاہ صاحب نے جو حکمت عملی اختیار کی،اس کے مطابق بے اختیار اور بے اثر بنا کر کمزور کیے گئے۔ بادشاہ صاحب کی اس وقت کی فراست و حکمت اور حکمتِ عملی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جب انہوں نے سوات کے ابتدائی دارالحکومت کبل میں پہلا جرگہ بلایا، تو قبائل کے عمائدین اور سرکردہ خوانین و ملکوں کے ساتھ طے کیا کہ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان قائم رکھنا آپ کی ذمہ داری ہوگی اور جو بھی قانون شکنی اور جرم ہوگا، اس کا جرمانہ آپ کا حق ہوگا۔ اس طرح قبائل کے عمائدین کو اپنے اختیارات اور مالی فائدے کا احساس دلا کر قبائل کو اپنی حکمرانی تسلیم کرنے پر راضی کیا۔ دوسرے جرگے میں عمائدین کو احساس دلایا گیا کہ چوں کہ حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا جو جرمانے آپ وصول کرتے ہیں۔ اس کا نصف آپ اپنے پاس رکھ کر بقایا نصف حکومت کے خزانے میں جمع کرا دیں۔ اب چوں کہ بادشاہ صاحب کی مناسب اور مؤثر حکمت عملی سے حکومت کی رٹ مضبوط ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے تیسرے جرگے میں بادشاہ صاحب نے خوانین اور بااثر افراد کے لیے سالانہ وظائف مقرر کرکے جرمانے خود وصول کرنے شروع کیے۔ بادشاہ صاحب نے معاشرے کے ایسے افراد جو درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جفاکش، محنتی اور با صلاحیت تھے، ان کو فوج میں نوکریاں اور مناصب دے کر خان خوانین کے قبائلی اثر و رسوخ سے ہوا نکال کر ان کو بھی سرکاری نوکری مانگنے پر مجبور کر دیا۔
آپ ذرا سوچیں، میانگل عبدالودود کوئی زیادہ پڑھے لکھے اور کسی مدرسے سے باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ ان کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ ابتدائی تھوڑی بہت تعلیم جو خواندگی کی حد تک ہوسکتی ہے، انہوں نے مساجد میں مختلف علما سے حاصل کی تھی، جو ضروری نہیں کہ انہوں نے رموزِ حکمرانی اور سیاسی امور کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ لیکن آپ ان کی حکمت و فراست اور عملی اقدامات کا اندازہ لگائیں کہ منتشر، خود سر اور ہر قانون و ضابطے سے آزاد قبائل کو انہوں نے چند سالوں کے اندر متحداور قانون و ضابطوں کا پابند بنا دیا۔
پھر ان کی انتظامی صلاحیت کو دیکھیں کہ انہوں نے ریاستِ سوات کوجو موجودہ تین اضلاع پر مشتمل تھی، مختلف انتظامی یونٹوں یعنی تحصیلوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک سیدھا سادہ فعال و متحرک ریاستی حکومتی ڈھانچا تشکیل دیا اور جس وقت انہوں نے ریاستی ذمہ داریاں اپنے بڑے بیٹے اور ولی عہد میانگل عبدالحق جہانزیب کو منتقل کیں، تو ریاستِ سوات میں بادشاہ صاحب کی مکمل عمل داری اور حکمرانی کو کوئی چیلنج کرنے والا موجود نہیں تھا۔
اس کے بعد آپ والیِ سوات میانگل جہانزیب کے دورِ حکومت میں ان کی تعمیر و ترقی کے لیے اقدامات کا جائزہ لیں، تو انہوں نے بادشاہ صاحب کی انتظامی اصلاحات کو ترقی دے کر ہر لحاظ سے ایک پُرامن، ترقی پذیر اور دیگر پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں ایک مثالی حکومت تشکیل دی۔ اگر آپ ان کے عدالتی، انتظامی اور سیکورٹی انتظامات پر ایک نظر ڈالیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس وقت تحصیل کبل میں تین پولیس سٹیشنوں کے مقابلے میں تین تھانے اور سات بڑے بڑے قلعے موجود تھے، جن میں کثیر تعداد میں عملہ موجود ہوتا تھا۔ ساتھ ساتھ ان کے لیے رہائشی سہولیات بھی موجود ہوتی تھیں۔ انصاف کا اتنا سادہ ، آسان اور مختصر طریقِ کار تھا کہ ایک دو دن یا زیادہ سے زیادہ ہفتہ، عشرہ میں مقدمات فیصل ہوتے تھے۔ نہ وکیل کی قید اور نہ کوئی اور واسطہ، بس مدعی اور مدعاعلیہ تحصیل دار ، حاکم، مشیر اور اس کے بعد براہِ راست ولی عہد یا والی صاحب کے روبرو پیش ہو کر اپنا مقدمہ پیش کرتے تھے۔ تعلیم کے حصول کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں تھی۔ بڑی بڑی خوبصورت عمارتوں والے سکول تعمیر کیے گئے کہ آج کے کالج بھی اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ اساتذہ اگرچہ اس وقت کم تعلیم یافتہ تھے، لیکن اس میں شک نہیں کہ انتہائی محنتی، ڈیوٹی فل اور مخلص ہوتے تھے۔ سرکاری نگرانی بھی نہایت مؤثر اور سخت تھی۔ اساتذہ کو ہر وقت انسپیکشن اور معائنے کا خوف لگا رہتا تھا۔ بعد میں بچوں کے لیے امریکن ایڈ سے دودھ اور گھی کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔ کالج تک تعلیم تقریباً مفت تھی۔ میٹرک پاس کے لیے ملازمت کے مواقع آسانی سے دستیاب تھے۔ آپ محکمۂ تعلیم میں جانا چاہتے تھے، یا محکمۂ صحت میں، یہ آپ کی صواب دید اور پسند پر منحصر تھا۔
اس طرح صحتِ عامہ کے لیے شروع میں سیدو ہسپتال قائم کیا گیا اور بعد میں مختلف مرکزی مقامات پر ڈسپنسریاں قائم کی گئیں۔ چوں کہ ماحول صاف تھا، آلودگی کا نام و نشان نہیں تھا۔ پہاڑ جنگلات اور درختوں سے بھرے ہوئے تھے۔قدرتی اور فطری ماحول برقرار تھا۔ خوراک پاک صاف اور سادہ غذا پر مشتمل تھی۔ اس وجہ سے لوگ صحت مند تھے۔ آج کل کی طرح کی مختلف بیماریوں کے نام بھی کسی کو معلوم نہیں تھے، لیکن اگر کوئی شخص کسی عارضے اور جسمانی تکلیف کے لیے ہسپتال سے رجوع کرتا، تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، اور ہسپتال میں داخل کرنے پر اصرار کیا جاتا۔ ہسپتال بھی پاک صاف اور مریضوں کی کم تعداد کی وجہ سے اکثر خالی ہوتے تھے۔
والیِ سوات کا یہ معمول تھا کہ دوپہر سہ پہر تقریباً روزانہ کسی نہ کسی علاقے کے دورے پر نکلتا تھا۔ زیرِ تعمیر عمارتوں کا معائنہ کرتا تھا۔ دیگر مختلف امور کا جائزہ لیتا تھا، لیکن دورے سے روزانہ پورا سوات ہائی الرٹ ہوتا تھا۔ جیسے ہی والی صاحب اپنے محل سے دورے کے لئے نکلتا۔ تقریباً ساری تحصیلوں، تھانوں اور قلعوں کے ٹیلی فون بج اٹھتے کہ صاحب آرہا ہے۔ پھر ہر ایک کو یہ خدشہ رہتا تھا کہ شاید صاحب ہماری طرف نکل آئیں۔ اس طرح، جس طرح کوئی گھر اور جائیداد کا مالک اپنے گھر اور جائیداد کے گردوپیش کا روزانہ جائزہ لیتا ہے۔
اسی طرح والیِ سوات اپنی ریاست کا جائزہ لیتا تھا۔ مقدمات خود سنتا تھا۔ فیصلے کرتا تھا اور انتظام و انصرام پر بھر پور توجہ دیتا تھا۔ حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ والیِ سوات نے گھریلو تربیت کے دوران میں تو غیر ملکی گوروں سے انگریزی زبان سیکھی تھی۔ کیون کہ انگلش وہ تقریباً اپنی مادری زبان کی طرح روانی سے بولتا تھا، لیکن کالج کی تعلیم آج کل کی طرح پوری نہیں کی تھی۔ اگرچہ اعزازی طور پر وہ فوج کے میجر جنرل تھے، لیکن نہ اس نے آئی سی ایس کا کورس کیا تھا، اور نہ کوئی اور انتظامیات سے متعلق تربیت حاصل کی تھی، لیکن آج جب ہم ان کے انتظامی، عدالتی اور ریاستی امور کے بارے میں اقدامات سے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہیں، تو ہمیں ان کے مقابلے میں بڑی بڑی ڈگریوں اور انتظامی تجربات کے حامل سیکرٹریز اور افسرانِ عقل و خرد اور حکمت و فراست کے لحاظ سے نادان بچے نظر آتے ہیں۔ ان کو انگریز دورِ حکومت سے لے کر آج تک جن امور کی تربیت دی جاتی ہے، ان میں سرِ فہرست یہ بات شامل ہوتی ہے کہ تم ایک افسر ہو۔ تم ایک معزز اور محترم ہستی ہو۔ یہ منصب اور مقام تم نے اپنی قابلیت اور صلاحیت سے حاصل کیا ہے۔ عوام تمہارے خادم ہیں۔ تم حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہو۔ لہٰذا اپنی حیثیت اور سٹیٹس کا ہر وقت خیال رکھو۔ تمہارا کام عوام کی خدمت نہیں،بلکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ڈرا دھمکا کر قابو کرنا ہے۔ تمہارے وقار ، حیثیت اور رعب کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو فاصلے پر رکھو۔ سائلین کو آسانی سے باریابی کی اجازت مت دو۔ ملاقاتیوں کو انتظار کراؤ۔ تمہارا ہر وقت دفتر میں حاضر ہو نا ضروری نہیں، لیکن اگر دفتر میں آگئے ہو، تو دروازے پر ’’صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں‘‘ کی تختی لگاؤ۔ جو بھی مسئلہ پیش ہو، اس کو التوا میں ڈال دو۔ اگر ضروری سمجھو، تو گیارہ بجے سے پہلے دفتر آنے کی ضرورت نہیں۔ پھر جتنا دل چاہے دفتر میں بیٹھو۔ شام کو دوستوں کے ساتھ کلب میں کوئی بھی کھیل کھیل سکتے ہو۔ بس اپنے گریڈ بڑھانے، تنخواہ اور الاؤنس میں اضافے اور بالائی آمدنی کے بارے میں حساس اور چوکنا رہو۔
یہ ہیں آج کل کے سول افسران کی تربیتی نِکات۔
اگر کچھ کمی بیشی ہوگئی ہو، تو اس کو میری لاعلمی پر محمول کرکے مجھے معذور سمجھیں۔ غضب خدا کا، اختیارات اتنے کہ سنبھالیں نہ جا سکیں اور غیر ذمہ دار ی کا یہ حال کہ اگر آپ کسی دن کسی بھی ضلعی ڈائرکٹریٹ کا جائزہ لیں، تو محکمے اتنے بے شمار کہ شمار میں نہ آسکیں، لیکن دفاتر خالی۔ اگر کسی کام سے جائیں، تو کلاس فور یا کسی نچلے درجے کے ملازم کا رٹا رٹایا یہ جواب سننے کو ملے گا کہ صاحب دورے پر ہیں۔ یا سرکاری کام کے سلسلے میں پشاور گئے ہیں۔ ہاں، رشوت کے سلسلے میں آسانی سے واسطہ بھی ملتا ہے، اور ریٹ طے ہونے پر کام بھی ہو جاتا ہے۔
ذکر شدہ ان حالات کے نتیجے میں یہ بد نظمی ، افراتفری اور لاقانونیت کیا گل کھلائے گی؟ آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ کسی معاملے کی کوئی آخری حد بھی تو ہوتی ہے اور ہمارا معاشرہ انحطاط و تنزل کی اس آخری حد کی طرف لڑھکتا ہوا جا رہا ہے۔
اللہ ہمارا ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔