کیا ہم اِک اور سرد جنگ کا میدان بننے جا رہے ہیں؟

منیرؔ نیازی کے کئی اشعار لوگوں کو زبانی یاد ہوچکے ہیں۔ ان میں سے دو اشعار آج کی تحریر میں ہم بھی رقم کرنے جا رہے ہیں۔ پہلا شعر ملاحظہ ہو:
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اسی شعر کے تناظر میں پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر زور و شور اتنا ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری سنیٹر عبدالغفور حیدری نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ سی پیک کا آغاز قبلہ مولانا فضل الرحمان کیا تھا۔ مولانا ہی کی وجہ سے چین نے یہ اربوں کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
حیدری صاحب کے اس انکشاف پر بندہ ’’انا للہ اناا لہ راجعون‘‘ پڑھے یا ’’لا حولہ ولاقوۃ؟‘‘ ان کی طرح دیگر پارٹیاں بھی سی پیک کا کریڈیٹ لیتے ہوئے قطعاً نہیں شرماتیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سی پیک کے مؤجد اور فریقِ اول (چین) نے ابھی تک اس راہداری پر شور و غوغا سے اجتناب برتا ہے۔ وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ کیا چین کا یہ طرزِ عمل ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی صرف گرجتے ہیں برستے نہیں؟
درحقیقت آج میں سی پیک پر چینی یا پاکستانی طرزِ عمل کا نہیں سوچ رہا، بلکہ موضوعِ سخن اس راہداری کے حوالے سے بھارت اور خاص کر امریکہ میں پائی جانے والی تشویش ہے، جو دونوں ممالک کو لاحق ہے۔ بھارت نے تو آغاز ہی سے اعلانِ لاتعلقی کرتے ہوئے کلبھوشن جیسے جاسوسوں کے ذریعے ردِعمل دینے کا بھی اظہار کیا، جب کہ امریکہ تاحال تو خاموش تھا، مگر حال ہی میں ایک امریکی عہدیدار ایلس ویلز نے کھلے عام اس منصوبے کو پاکستان کے لیے نامناسب اور چینی غلامی قبول کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ امریکی خاتون عہدیدار کی باتوں کا چینی اور پاکستانی حکام نے کماحقہ جواب دیا ہے، جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں میں فقط قارئین کی توجہ اُس عظیم سرد جنگ کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو عنقریب پاکستان کے خطے بلوچستان میں چھڑنے والی ہے۔ یہ جنگ چین اور امریکہ کے مابین ہوگی۔
یہ جنگ کیوں ہوگی؟ اس کا جواب دینے سے پہلے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں سی پیک کا کریڈیٹ لینے والوں میں کسی پارٹی نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تھینک ٹینک بنایا ہو، یا کوئی اور پالیسی مواد جمع کیا ہو، تو براہِ کرام راقم کو ارسال کیجیے گا، منتظر رہیں گے۔ راقم کا وعدہ ہے کہ اس حوالہ سے ایک تحریر ان صفحات میں سپردِ قلم کی جائے گی۔
قارئین، مسئلہ فقط کریڈٹ لینے اور باتیں بنانے کی حد تک نہیں، بلکہ امریکہ بہرصورت سی پیک کو ناکام بنانے پر عمل پیرا بھی ہوچکا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ سی پیک دراصل چین کے ’’بیلٹ روڈ انیشیٹیو‘‘ یعنی (بی آر آئی) کا حصہ ہے، مگر اس منصوبے میں صرف سی پیک ہی نہیں بلکہ پانچ اور بھی راہداریاں شامل ہیں یعنی
٭ اول، چین منگولیا روس اقتصادی راہداری۔
٭ دوم، نیو یورو ایشیا لینڈ برج اقتصادی راہداری۔
٭سوم، چین وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اقتصادی راہداری
٭ چہارم، بنگلہ دیش چائینہ انڈیا میانمار اقتصادی راہداری
٭ پنجم، چین انڈو چین پننسولیا اقتصادی راہداری
٭ ششم، پاکستان چین اقتصادی راہداری
علاوہ ازیں یورپین بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بی آر آئی منصوبے سے دنیا کے 70 ممالک اور دنیا کی کل آبادی کا 65 فیصد مستفید ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کو چھے راہداریوں، 70 ممالک اور پوری دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کے برعکس صرف سی پیک اور پاکستان کے حوالہ سے تشویش کیوں ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سی پیک کا محور گوادر ہے۔ گوادر مکمل طور پر تعمیر ہوجاتا ہے اور اس کے بعد فعال ہوجاتا ہے، تو اس خطے میں نہ صرف امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ کچھ اسلامی دوست اور پڑوسی ممالک کا نان نفقہ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ خاص کر بھارتی تھانے داری ختم ہوسکتی ہے۔ بدیں وجہ امریکہ اور بھارت، چین کے ساتھ سرد جنگ میں مصروف ہیں اور مستقبلِ قریب میں اس کا میدان مکمل طور پر بلوچستان ہوگا۔ وقت کے ساتھ اس سرد جنگ میں شدت آتی جائے گی۔ کیوں کہ امریکہ نے بی آر آئی کے مقابلے (IDFC, BUTI) جیسے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ عنقریب ان کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ اس تناظر میں نئے سال کے آغاز میں پندرہ امریکی کاروباری کمپنیوں کے نمائندگان پاکستان کا دورہ کرنے آ رہے ہیں، تاکہ مشترکہ کاروباری معاملات پر بات چیت کی جاسکے۔ یہ داراصل سی پیک کو کاونٹر کرنے کا حربہ ہے۔ اس لیے اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کو بیدار ہونا پڑے گا۔ کیوں کہ روس، امریکہ سرد جنگ میں پاکستان ہی میدانِ جنگ تھا۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لہٰذا چین، امریکہ سرد جنگ میں پاکستان میدانِ جنگ بنے گا یا نہیں؟ یہ فیصلہ ’’فیصلہ سازوں‘‘ نے کرنا ہے، لیکن ایک سرد جنگ کے بعد دوسری ہرگز دانش مندی نہیں۔ پہلی جنگ سے کیا حاصل ہوا، جو دوسری کے لیے میدان صاف کیا جا رہا ہے۔ بقولِ منیر نیازی
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔