بشریٰ اعجاز نے مشہور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی سے اپنی ایک ملاقات کا حال لکھا ہے۔ اس ملاقات میں کیفی صاحب نے ایک درناک واقعہ بیان کیا ہے۔ چند سال قبل وہ پاکستان تشریف لائے۔ جس گھر میں ان کا قیام تھا، وہاں کسی کا فون آیا۔ فون کرنے والے اور سننے والے کے درمیان یہ گفتگو ہوئی:
’’سنا ہے یہاں شبانہ اعظمی آئی ہوئی ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔ شبانہ تو نہیں، ان کے والد کیفی اعظمی صاحب آئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’اُو ہو۔ مَیں نے تو سنا تھا کہ شبانہ آ رہی ہیں۔‘‘ (بقولِ کیفی اعظمی یہ بات کہنے والے کی آواز میں مایوسی تھی)
’’آپ کو اُن سے کچھ کام تھا؟‘‘
’’کام تو نہیں، ان سے ملنے کا شوق تھا۔‘‘
’’دیکھیے، اگر کیفی صاحب سے ملنا ہے، تو گھر تشریف لائیے۔‘‘
’’جی نہیں، مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔ اس طرح کے لوگ تو یہاں اکثر آتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ شبانہ ہوتیں، تو پھر بات تھی۔‘‘
یہ واقعہ سنا کر کیفی صاحب نے فون کرنے والے کے لہجے سے بھی زیادہ مایوسانہ لہجے میں کہا: ’’یہ ہے اس معاشرے میں ادیب کا اصل مقام۔ ایسے موقعوں پر لگتا ہے جیسے تمام عمر جھک مارتے گزار دی۔ اس سے تو بہتر تھا کہ ابن الوقت بن کر ٹھاٹ کی زندگی گزارتے اور شان سے مر جاتے۔ کم از کم متعلقین کو تو ہم سے گلہ نہ ہوتا۔‘‘
(’’مزید خامہ بگوشیاں‘‘ از ’’مشفق خواجہ‘‘ مطبوعہ ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء‘‘، صفحہ نمبر 189اور 190 سے انتخاب)