دودھ کا دودھ، پانی کا پانی (کہاوت کا پس منظر)

پورا پورا انصاف۔ یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب منصف یا کوئی شخص ایسا کھراانصاف کرے جس پر ذرا بھی شک کا گمان نہ ہو۔ اس حوالہ سے معمولی فرق کے ساتھ دو حکایتیں بیان کی جاتی ہیں، جن میں سے ایک ذیل میں ملاحظہ ہو:
’’ایک حلوائی دودھ میں بہت پانی ملایا کرتا تھا۔ ایک روز ایک بندر اسی حلوائی کی دکان سے روپیوں پیسوں سے بھرا گلھڑ اُٹھا کر لے گیا اور ساحلِ دریا پر کھڑے ایک درخت کے اوپر جا بیٹھا۔ حلوائی بھی اس کا پیچھا کرتا ہوا وہاں جا پہنچا۔ اس نے بندر کو بہت بہلایا پھسلایا، مگر اس نے ایک نہ مانی۔ دینے کے لیے بندر کو مٹھائیاں بھی دکھائیں، مگر وہ نہ مانا۔ بندر نے پیڑ کے اوپر سے روپے اور اٹھنّیاں وغیرہ تو دریا میں پھینکنا شروع کر دیں اور پیسے حلوائی کی طرف۔ یہ دیکھ دیکھ کر حلوائی کی جان سوکھ رہی تھی۔ آخر میں اس نے تھک ہار کر اور جھل بُھن کر کہا، ارے ظالم کیا غضب کر رہا ہے۔ پیسے میری طرف پھینک رہا ہے اور روپے، اٹھنیاں اور چونیاں دریا میں ڈال رہا ہے۔ تماشائیوں میں سے ایک شخص نے حلوائی سے کہا۔ بندر ٹھیک ہی کر رہا ہے۔ دودھ کے دام تو تیرے پاس پھینک رہا ہے اور پانی کے دام پانی میں ملا رہا ہے۔ یہ ہے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی۔‘‘
دوسری حکایت میں حلوائی کی جگہ گوالا بیان کیا گیا ہے۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 125 سے انتخاب)