اگر کسی بات کا نتیجہ موافق مقصود ظاہر نہ ہو رہا ہو تو کہتے ہیں، یعنی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ذیل میں دی گئی حکایت ہے:
’’ایک راجا نے اپنے دربار میں چار مشیروں کی تقرری کی۔ ان میں سے ایک سپاہی تھا، دوسرا برہمن تھا، تیسرا اُونٹ والا اور چوتھا تیلی تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوسرے راجا نے اس پر چڑھائی کر دی۔ راجا فکر مند ہوگیا۔ اس نے اپنے چاروں مشیروں کو دربار میں بلوایا اور سب سے الگ الگ رائے مانگی کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟ سپاہی نے فوراً جواب دیا، حضور سوچتے کیوں ہیں؟ اس کے خلاف ہمیں لڑنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ اس کے بعد راجا نے برہمن سے دریافت کیا، تو اس نے کہا، مہاراج جس طرح بھی ممکن ہو، معاہدہ کر لینا چاہیے ورنہ خونِ ناحق ہگا۔ تمام اِملا ک تباہ و برباد ہوگی۔ جب راجا نے ساربان (اونٹ والے) سے پوچھا، تو اس نے کہا، اس کے بارے میں، مَیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ آخر میں بادشاہ نے تیلی سے پوچھا کہ اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تیلی نے کہا، حضور پریشان نہ ہوں۔ قطعی گھبرائیں نہیں۔ تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے۔ یعنی جلدی نہ کیجیے۔ خوب سنجیدگی سے غور و فکر کرلیجیے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے۔ تیل لینا ہو، تو برتن میں تیل دیکھ کر ہی پہچان نہیں ہوسکتی۔ اس کی دھار دیکھنے پر ہی اس کو ٹھیک سے پَرکھا جاسکتا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 104 سے انتخاب)