کسی انسان کے لیے ماں کے بعد باپ کا سہارا انتہائی اہم ہوتا ہے، لیکن اسے خدا کی مرضی یا انسان کی بدقسمتی کہیے کہ بعض انسان بچپن اور بعض شیرخوارگی میں باپ کے اس بے نظیر سایہ اور شفقت سے محروم ہوکر یتیم ہوجاتے ہیں۔ خدا کسی کو یتیمی کا داغ اور دُکھ نہ دے۔ ہم خود اس درد ناک مرحلے اور عظیم آزمائش سے گذر چکے ہیں۔ ہمارے اس مادہ پرست اور خود غرض معاشرے میں یتیم پر جو کچھ گذرتا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے جو دورِ یتیمی سے گذر چکا ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں یتیم اور بیوہ کو منحوس خیال کیا جاتا ہو، جہاں نام نہاد مسلمان اور متکبر شرفا یتیم کے سامنے گذرنا بدشگونی سمجھتے ہوں، غور کریں ایسے معاشرے میں یتیم کی کیا حیثیت ہوگی؟ خوش قسمتی سے اگر رشتہ داروں یا دادا، نانا، ماموؤں اور چچاؤں وغیرہ میں سے کوئی خدا ترس ملا اور زندگی کے اس کٹھن راستے پر کچھ مدد کی، ورنہ در در کی ٹھوکریں کھانا، ننگ، بھوک و افلاس اور اپنوں پرایوں کی دھتکار یتیم کا مقدر ہے۔
یتیمی ایک ایسا دُکھ ہے جسے خالقِ کائنات نے خود محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ربِ کائنات نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں کئی جگہوں پر یتیم کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے۔ خود سرورِ کائناتؐ یتیمی کا داغ لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپؐ نے بذاتِ خود اپنی زندگی میں یتیموں اور بے کسوں کی غم گساری کی۔ ان سے ہمدردی اور عملی طور پر ان کی پرورش کی اور اپنی کئی احادیث میں بھی یتیموں کے حقوق کے تحفظ اور ان سے بھلائی کرنے کا حکم دیا۔
عالمی یومِ یتامیٰ منانے کی تجویز پہلے پہل ترکی کی ایک سماجی تنظیم نے پیش کی۔ اس کے بعد او آئی سی کے زیرِ انتظام اسے ہر سال ساری دنیا میں پندرہ رمضان المبارک کو منایا جاتا ہے۔ اس روز لوگوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاں یتیموں کے حقوق کا خیال رکھیں اور انہیں معاشرے میں پذیرائی بخشیں، تاکہ احساسِ محرومی کے شکار یہ بچے معاشرے کے فعال اور مفید شہری بنیں۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے یتیموں کے حقوق پر زور دیا ہے۔ اس بارے کتاب اللہ اور احادیثِ رسولؐ میں کافی مواد اور احکام موجود ہیں۔ یتیم کے غصب مال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال بلا استحقاق کھاتے ہیں، وہ اپنے شکموں میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ جلتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘
حضرتِ عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاکؐ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص یتیم کو مارتا ہے، تو اس کے رونے سے رحمان کا عرش لرزتا ہے۔ فاروقِ اعظم ؓ فرماتے ہیں کہ حضور سرورِ کائناتؐ یتیموں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے۔ خود حضرتِ عمر ؓ کا بھی یہی معمول تھا۔ حضرتِ عبدالرحمان بن ابزی ؓ روایت کرتے ہیں کہ زبور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ’’یتیم کے لیے مہربان باپ کی طرح بن جاؤ۔‘‘
حضرت زید بن اسلمؓ رسولؐ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’مَیں اور یتیم بچے کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے۔‘‘ اس موقع پر آپؐ نے دو انگلیاں ملاتے ہوئے اشارہ بھی کیا۔ قرآنِ کریم کے سورۂ ضحی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’یتیم کو مت جھڑکیے!‘‘ ایک صحابی نے حضور اکرمؐ سے اپنی سنگ دلی کی شکایت کی، تو آپؐ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھرا کر اور اسے کھانا کھلا کر تمہارے دل کی سختی دور ہوگی۔
٭ موازنہ: ہمارے بچپن کے زمانے میں یعنی آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے عام آدمی کی معاشی حالت نہایت ناگفتہ بہ تھی۔ غربت کی انتہا تھی۔ غریب اور سفید پوش لوگوں کو دو وقت کی سوکھی روٹی بہ مشکل سے ملتی۔ غور کریں کہ اس وقت یتیموں اور بے کسوں کا حال کتنا برا ہوگا! یتیم اور لاچار طلبہ کو نصابی کتابیں، نوٹ بکس اور دیگر تعلیمی میٹریل نہایت مشکل سے ملتا۔ یہاں تک کہ کتابیں باندھنے (بستے) کا کپڑا بھی بہ مشکل دستیاب ہوتا۔ ہم خود کسی سے نصابی کتاب مستعار لینے کے لیے کئی میل پیدل چلتے۔ کئی دنوں تک انتظار کرتے۔ سیاہی، قلم اور کاغذ خریدنے کے لیے ہر کسی کے پاس پیسے بھی نہ ہوتے۔ اگلی جماعت کے طالب علم سے پاس ہونے کی صورت میں اس کی نصابی کتابیں خریدنے کے لیے پہلے سے آدھی قیمت پر معاہدہ ہوجاتا۔ اسی طرح یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہتا۔ اوپر سے بھوک پیاس اور اساتذہ کی مار اور سزائیں۔ انہی حالات میں کوئی خوش قسمت انسان ہی تعلیم حاصل کرسکتا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ دور یتیموں اور بے کسوں کے لیے بہترین دور ہے۔ نصابی کتابیں سرکار دیتی ہیں۔ عام آدمی کی قوت خرید بھی بہتر ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات اور ادارے بھی یتیم اور لاچار طلبہ کو تعلیمی میٹریل فری دیتے ہیں۔ سارے ملک میں یتیم خانوں اور پرورش گاہوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں پر یتیموں اور غریب طلبہ کو مفت تعلیم، کھانا اور رہائش کی سہولیات موجود ہیں۔ کئی پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی ہونہار یتیم طلبہ کو وظائف دیتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرکے ان کے مستقبل کو سنوارتے ہیں۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔