صدارتی نظام بہتر ہے کہ پارلیمانی؟

سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے ملک کے مین سٹریم میڈیا تک سفر کرتے ہوئے صدارتی نظام پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ عوام کی اکثریت شائد صدارتی اور پارلیمانی دونوں نظام سے نہ تو اتنے آشنا ہیں اور نہ ہی مستفید، علاوہ ان ماہرینِ سیاسیات کے، بااثر سیاسی گھرانوں کے چند چشم و چراغ کے اور ان مقتدر حلقوں کے جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، یا ان کھوٹے سکوں کے، چند سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے جن کی نسلیں برطانوی راج سے لے کر اب تک مختلف شکلوں میں حکومتوں کا حصہ رہی ہیں، اور جنہوں نے اب تک صرف ذاتی فوائد حاصل کیے ہیں۔ انگریزوں نے جن جاگیرادروں میں بڑی بڑی جاگیریں بانٹی تھیں، وہی لوگ حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر وڈیرے، چوہدری، خان، نواب، ملک اور سردار ہی پارلیمنٹ تک پہنچ پاتے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کے مفادات کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ان کو خوب پارلیمانی نظام کا علم ہے۔ لہٰذا میں عام عوام کو عام فہم زبان میں دونوں نظاموں پر تھوڑی سی روشنی ڈال کر سمجھانا چاہوں گا۔ بقولِ حضرتِ علامہ اقبال:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پاکستان میں اس وقت پارلیمانی نظام رائج ہے۔ اس نظام میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے مختلف نمائندوں کا انتخاب کرکے انہیں قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچایا کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے منتخب نمائندے ووٹ ڈال کر ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ عوام کے یہ منتخب نمائندے کس کو وزیراعظم منتخب کرتے ہیں؟ یہ ان کی مرضی و منشا پر منحصر ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ منتخب نمائندے اپنے ووٹرز کی سیاسی سوچ اور مزاج کے برعکس اپنے ووٹ کی قیمت لگاتے ہیں، یا بالفاظِ دیگر وہ ضمیر کا سودا کرکے اپنی عوامی نمائندگی بیچ ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کی کمی کے باعث اکثریت ایسے نمائندوں کی اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے، جنہیں قانون سازی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، بلکہ ان کی نظر قومی دولت لوٹنے پر ہوتی ہے۔ پھر وزیراعظم بھی ان سے بلیک میل ہوتا رہتا ہے۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور چاہتے ہوئے بھی وزیر اعظم کسی لائق فائق اور اہل شخصیت کو وزیر نہیں لگا سکتا۔ عددی برتری اور عدم اعتماد کا خوف وزیرِاعظم کے سر پر ہر وقت بادل کی طرح منڈلاتا رہتا ہے۔ لہٰذا مجبوراً ایسے نمائندوں کو جو کہ وزارت کے اہل ہی نہ ہوں، قلمدان سونپ دیے جاتے ہیں اور پھر ان محکموں کا جو حال ہوتا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پارلیمانی نظام میں حکومت چلانے سے زیادہ حکومت بچانے کی فکر لاحق ہوتی ہے جب کہ کرپٹ مافیا پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں صدارتی نظام کی طرف۔ اس نظام میں عوام براہِ راست اپنے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایم این ایز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملک کا پورا نظام صدر ہی چلا رہا ہوتا ہے۔ اس نظام میں بھی پارلیمنٹ کا وجود ہوتا ہے، لیکن وہ صرف قانون سازی تک محدود ہوتا ہے، جب کہ حکومت چلانے کے لیے صدر کو پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔ صدر مکمل باختیار ہوتا ہے۔ صدر کو نہ تو کسی اتحادی کا خوف ہوتا ہے اور نہ منتخب نمائندے اسے بلیک میل کرکے مرضی کی وزارتیں حاصل کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
قارئین، پاکستان میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کا موازنہ کرنا ہو، تو موجودہ نظام کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہی وجہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات ہیں، وہ سب صدارتی نظام کے خلاف ہیں۔ حالاں کہ صدر کو بھی عوام براہِ راست منتخب کرتے ہیں اور یہ بھی جمہوری نظام کا حصہ ہے جو اس وقت امریکہ اور ترکی سمیت دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے حقیقی معنوں میں پارلیمانی نظام اور نہ صدارتی نظام ہی رائج رہا ہے۔ کیوں کہ پاکستان پر یا تو فوجی آمریت (برائے نام صدر) اور یا کرپٹ جمہوری نظام مسلط رہا ہے، بدیں وجہ پاکستان اور عوام دونوں نظاموں سے بے زار نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ ملکی نظام پر اگر نظر ڈالی جائے، تو اس وقت ایک کمزور جمہوری حکومت ہے، جسے اپوزیشن جماعتیں خود چھے اینٹوں پر کھڑی عمارت قرار دے رہے ہیں، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی ایک اینٹ کو ہلانے کی کوشش کی گئی، تو یہ کمزور عمارت خود ان کے سر پر گر جائے گی۔ لہٰذا وہ اینٹ ہلانے سے بھی کتراتے نظر آ رہے ہیں۔ اپوزیشن کی حمایت کے بغیر حکومت قانون سازی کر ہی نہیں سکتی، اور اپوزیشن اپنے ذاتی مفادات کے علاوہ کوئی قانون سازی ہونے نہیں دے رہی۔ قانون سازی میں حکومت بے بس، لاچار اور مجبور ہے، لیکن صدارتی نظام لانے کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ لہٰذا یہ بھی ناممکن نظر آرہا ہے۔ البتہ اگر حکومت چاہے، تو موجودہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے عوام سے رجوع کرسکتی ہے اور عوام کو اختیار دیا جاسکتا ہے کہ وہ ریفرینڈم کے ذریعے پارلیمانی یا صدارتی نظام کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کو ایم این ایز کے برعکس خود ایم این ایز کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ وہ براہِ راست اپنا صدر چن لیتے ہیں، جب کہ پارلیمانی نظام میں ممبرانِ قومی اسمبلی ہی صدر اور وزیرِاعظم کو چننے کے پابند ہوتے ہیں۔ صدر بااختیار ہونے کے باوجود جواب دِہ بھی ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام کے بارے میں قائداعظم کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ "میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔” اب یہ فیصلہ عوام کو خود ہی کرنا ہے کہ وہ ملک میں کس نظام کے حامی ہیں؟

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔