دنیا کے بڑے اور اہم ممالک کے علاوہ اگر آپ کسی تعلیم یافتہ شخص سے بھی کسی چھوٹے اور قدرے غیر اہم (غیر اہم اس حوالہ سے کہ اس کا مجموعی کردار عالمی سطح پہ نمایاں نہ ہو، اور ایسے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں) ملک کے سربراہ کا نام پوچھیں، تو وہ اس سے لاعلم ہوگا۔ دارالحکومت کا نام پوچھیں تو ہو سکتا ہے کہ اسے اس کا بھی علم نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس شخص کے علم میں کوئی کمی ہے یا جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہوا، اس درس گاہ میں کوئی مسئلہ ہے، بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں جو ہر لمحہ خبروں میں رہتے ہیں۔ ان پہ شہ سرخیاں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ ان کا اقوامِ عالم کے دیگر مسائل میں کردار نمایاں ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی ایچی بیچی ہم میں سے اکثریت کو پتا ہوتی ہے، لیکن بعض ترقی یافتہ ممالک بھی جو عالمی سطح پہ نمایاں نہیں ہوتے، یا اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا وغیرہ کی زینت زیادہ نہیں بنتے۔ ان سے اکثریت لاعلم رہتی ہے، یعنی ان کے اہم شہروں، اور راہنماؤں سے لاعلمی رہتی ہے۔
سانحۂ کرائسٹ چرچ سے پہلے کتنے لوگ جانتے تھے کہ کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا ایک شہر ہے؟ اس سوال کااپنے حلقۂ احباب سے ہی جواب تلاش کرنے پہ 10 میں سے 6 لوگ اس سے لاعلم تھے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً 10 میں سے 5 لوگ تو اَب بھی نیوزی لینڈ کے دارالحکومت (ویلینگٹن) سے لاعلم نکلے، لیکن آج پوری دنیا کی نظریں نہ صرف نیوزی لینڈ پہ ہیں، بلکہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس وقت عالمی سطح پہ ایک ایسی راہنما کے طور پہ ابھر کے سامنے آئی ہیں، جو اس سانحہ کو دہشت گردی کہنے سے ہچکچانے پہ سپر پاور امریکہ کے صدر تک کو بھی قدرے تلخی سے مخاطب کر چکی ہیں۔ انہوں نے ہمارے لہجے کی طرح بیانات تو نہیں داغے، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تعاون کی پیشکش پہ ان کا جواب ہی ایسا تھا کہ مجبوراً یا طوعاً و کرہاً امریکی صدر کو لولی لنگڑی وضاحت دینا پڑی، اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سانحہ کی مذمت کرنا پڑی۔ پوری دنیا نے نہ صرف نیوزی لینڈ سے اظہارِ یکجہتی کیا بلکہ عالمی راہنماؤں نے جسینڈا آرڈرن (Jacinda Ardern) کو ہر ممکن مدد و حمایت کا بھی یقین دلایا۔ لیکن کیا کسی کے وہم و گماں میں بھی تھا کہ پاکستان سے دو حصے چھوٹے اور آبادی کے لحاظ سے تو کئی گنا کم حیثیت میں موجود دنیا کے نقشے پہ اس ملک کی وزیر اعظم پوری دنیا کی پیشکش کا ’’شکریہ‘‘ کہہ کے معذرت کر کے ایسے اُٹھ کھڑی ہوگی کہ لمحوں میں پوری دنیا نہ صرف اس کے نام سے واقف ہو جائے گی بلکہ اسے بصد احترام عالمی راہنما کا درجہ بھی مل جائے گا۔
سانحۂ کرائسٹ چرچ کے بعد کے واقعات پہ نظر دوڑائیے۔ جسینڈا آرڈرن ایک گمنام راہنما سے کس طرح عالمی راہنما کے طور پہ ابھریں؟ وہ اس پورے معاملے کو یورپی رنگ دینا چاہتیں، امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملاتیں، اور مسلمانوں کو ہی اس کا قصور وار ٹھہراتیں، تارکینِ وطن کو اس کا سبب کہتیں، تو یقینی طور پر آج شاید وہ چند دن خبروں میں رہنے کے بعد خطے کی ہی راہنما ہوتیں۔ لیکن ان کے طرزِعمل نے معاملے کو الگ رُخ دے دیا۔ سانحہ کے بعد آنے والے جمعہ کے روز نہ صرف جسینڈا آرڈرن خود پوری طرح مستعد اور عملاً میدان میں نظر آئیں، بلکہ اپنی وزیر اعظم کی تقلید کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے عوام نے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے مساجد کا رُخ کیا۔ نیوزی لینڈ کی مقامی عورتوں نے سر پہ اسکارف لیا کہ وہ یہ بتا سکیں کہ مسلمان تارکینِ وطن نیوزی لینڈ کا حصہ ہیں۔ اس موقع پر ایسے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ نیوزی لینڈ کے مقامی باشندے کبھی آنسوؤں کے ساتھ اور کبھی غصے میں اعلان کرتے نظر آئے کہ دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ وہ کامیاب ہونے دیں گے۔
یاد رہے کہ اس سانحہ کے بعد برطانیہ سمیت چند دیگر ممالک میں اِکا دُکا واقعات مسلمانوں کے خلاف ہوئے، لیکن اس کے باوجود نیوزی لینڈ کے عوام نے واضح سمت چُن لی۔ وزیر اعظم متاثرین کے گھر گئیں۔ پاکستانی نژاد نعیم رشید شہید کو ایوان میں تقریر کے دوران میں اپنا ہیرو قرار دیا۔ ایوان کی کارروائی سے پہلے قرآنِ حکیم کی تلاوت اور سلام کرنے کا انداز ہی شاید مسلمانوں کے دل میں ان کا احترام بڑھا گیا۔ دیگر شہدا کے دکھ پہ اُن کی آنکھوں کے آنسو ان کے خلوص کا ثبوت بنے۔ ڈی ڈبلیو جرمنی (اُردو) کی ایک ویڈیو رپورٹ میں وہ بلا جھجک کہتی نظر آئیں کہ ’’آپ (ان کا مخاطب مسلمان کمیونٹی اور نیوزی لینڈ کے مقامی افراد دونوں تھے) اس واقعے کے بعد گھروں کے دروازے بجا طور پہ بند کر سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور اس عمل پہ میں آپ کی شکرگزار ہوں۔‘‘
یہ طرزِ عمل ان کو عالمی سطح پہ پہچان دے گیا، اور قابلِ داد ہیں نیوزی لینڈ کے عوام بھی کہ جب اسی رپورٹ میں ایک نیوزی لینڈ کی مقامی خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ نے سر پہ اسکارف کیوں لیا ہے، تو رُندھی ہوئی آواز میں ان کا کہنا تھا کہ اگر دوبارہ سے کوئی ایسی گھناؤنی کارروائی کرنا بھی چاہے، تو ہم مقامی باشندے ایسے ان کے سامنے ہوں کہ وہ ہم میں اور مسلمانوں میں تمیز نہ کر سکے۔ حیرت ہے، خوشی ہے کہ کیسے زندہ قومیں اپنا وجود ثابت کرتی ہیں۔ مقامِ تقلید ہے کہ کس طرح عوام اپنی راہنما کے ایک ایک لفظ کے امین بن جاتے ہیں۔ کل تک لوگ جس راہنما کے نام تک سے واقف نہ تھے، آج اُس کی تصاویر اپنی پروفائل پہ لگا رہے ہیں۔ کل تک جو لوگ ایک ملک کے طول و عرض سے ناواقف تھے، آج اسی ملک کے شہروں و قومی نشانات کو اپنے سینے پہ سجا رہے ہیں۔
دل سے پوچھا کہ کیسے جسینڈا آرڈرن جیسی گمنام راہنما لمحوں میں عالمی راہنما بن گئی، تو جواب صرف اتنا ملا کہ اپنے ملک سے مخلص، اپنے عوام سے محبت، اور بنا رنگ و نسل اپنے عوام کے لیے کام کرنا ہی اس گمنام وزیر اعظم کو عالمی راہنما بنا گیا۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔