اردو ادب کا دمکتا چراغ، صاحبِ طرز شاعر اور مشہور خطیب محسن نقوی 15 جنوری 1996ء کو دہشت گردوں کے ہاتھوں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انہیں 45 گولیاں لگی تھیں۔
وکی پیڈیا کے مطابق آپ کا مکمل نام ’’سید غلام عباس‘‘ تھا۔ محسنؔ اُن کا تخلص تھا اور لفظ ’’نقوی‘‘ کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا بحیثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسنؔ نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہو گئے ۔
محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعۂ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گریجویش کے بعدجب یہ نوجوان جامعۂ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا، تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ لاہور میں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔
بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکرِ اہلِ بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلِ بیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔
محسن نقوی کے کئی مجموعۂ کلام چھپ چکے ہیں جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:
بند قبا 1969ء، برگِ صحرا 1978ء، ریزہ حرف 1985ء، عذابِ دید 1990ء، طلوعِ اشک 1992ء، رختِ شب 1994ء، خیمہ جاں 1996ء، موجِ ادراک اور فراتِ فکر وغیرہ۔