قومی بحران

قوموں پر بحران آتے ہیں اور قومیں وقتاً فوقتاً مسائل و مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں، لیکن ہر قومی بحران کے وقت اگر قومی قیادت مخلص، بالغ نظر، حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والی اور ملک و قوم کے ساتھ وفادار ہو، تو بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا کرکے اپنے تدبر اور قوتِ فیصلہ سے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان گوناگوں مسائل و مشکلات سے دوچار ہے۔ ان میں اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے درپیش مسائل ہیں۔ ان میں سیاسی، معاشی، سماجی، اخلاقی اور قومی خود مختاری کو درپیش مسائل سرِ فہرست ہیں۔
سیاسی مسائل میں ہمیں صوبہ بلوچستان میں بد امنی، قتل و غارت اور بیرونی مداخلت کا سامنا ہے اور اپنے لوگ بھی ہم سے اتنے ناراض ہیں کہ غیروں اور دشمنوں سے مل کر اپنے صوبے کو پاکستان سے آزاد کرانے کے لیے ان کی سازشوں میں شریک و سہیم ہیں۔ معاشی مسائل میں سرِفہرست ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ شامل ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں قرض و ادھار لینے کے لیے درد ر جا کر ان کی شرائط پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ در آمدات و برآمدات میں عدم توازن ہے۔ خاص کر پڑوسی اور گہرے دوست ملک چین کے ساتھ تو تجارتی خسارہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ وہ ہمارے ضروری اور کار آمد اشیا کے لیے بھی اپنے بند دروازے نہیں کھولتا اور ہمیں پلاسٹک کی بنی مصنوعات، سامانِ آرائش، کپڑے، ٹوتھ پک اور سبزیاں تک برآمد کرتا ہے۔ اس کی کئی مصنوعات کی وجہ سے ہمارے ملک کی اپنی صنعتیں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ ہماری معیشت پر ان کی در آمدات زہرِ قاتل اور مہلک جراثیمی حملہ ثابت ہوئی ہیں۔ کئی تجارتی معاہدوں میں خصوصاً ریلوے کے انجنوں اور ڈبوں میں ان کی کمپنیز کی دھوکا دہی اور کوالٹی کی کمزوری سامنے آئی ہے۔
یہی معاملہ سی پیک کا ہے، جس کے بارے میں قوم اب تک شک و ریب کی کیفیت میں مبتلا ہے کہ اس معاہدے میں ایسا کیا ہے، جو حکمران ٹولہ قوم کے سامنے لانے سے گریز کر رہا ہے۔ ابھی عمران خان کے حالیہ دورۂ چین کے دوران میں بھی صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہماری نقد امداد کے اعداو شمار کو خفیہ رکھا جائے اور ان کو ظاہر نہ کیا جائے۔ بقولِ عمران خان ’’یہ چین کا مطالبہ ہے۔‘‘
سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ہم جس بحران کا شکار ہیں، وہ انتہائی پیچیدہ اور گھمبیر ہے۔ ہمارے سماجی اور اخلاقی ڈھانچے کی بنیاد جس عقیدے اور نظریے پر قائم ہے، وہ بنیادیں 1948ء سے لے کر اِسی وقت تک ہر بر سر اقتدار گروہ کے ہاتھوں منہدم اور زمین بوس ہوچکی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میں اپنی پوری توجہ صرف اقتدار کے حصول اور اس کی حفاظت تک مرکوز رکھی۔ سیاسی کامیابی بذریعۂ دولت اور حصولِ دولت بذریعۂ سیاست کا وطیرہ اختیار کرکے پوری قوم کو رشوت لینے دینے والا، کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے حصولِ جاہ و مال کے موذی مرض میں مبتلا کیا۔ اب بھی ہمارے حکمراں قوم کو صرف معاشی ترقی، آرام و آسائش اور عیش و عشرت کی خوش خبریاں سنارہے ہیں۔ قومی اخلاق کے تنزل و انحطاط کا ان کو ذرہ برابر احساس نہیں۔ کیوں کہ وہ خود بھی اس اخلاقی بیماری اور مال و جاہ کے حصول کے مریض ہیں۔
ان حالات میں توقع تھی اور امید بندھی تھی کہ عمران خان کرکٹ کے میدان کا کھلاڑی ہے، ورلڈ کپ کا فاتح ہے، شوکت خانم ہسپتال کا معمار ہے، بظاہر نڈر اور بے باک ہے، قومی مسائل و مشکلات کا شعور و ادراک رکھتا ہے،تو ان کی قیادت اس ملک و قوم کے لیے نئی زندگی کی مسیحائی اور نویدِ جاں فزا ہوگی، لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اب یہ بات بالکل چھپی اور پوشیدہ نہ رہی کہ عمران خان کو صرف اقتدار مطلوب تھا۔ چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہو۔ اس وجہ سے وہ تمام افراد جو قومی خزانے کو لوٹنے اور مفادات حاصل کرنے میں ملوث تھے، اور ان کا یہ کردار پوری قوم پر ’’اظہر من الشمس‘‘ کے مصداق تھا۔ وہ سب اس کی قیادت میں ایک بار پھر ملکی دولت لوٹنے کے لیے متحد ہوگئے۔
اگر ہم ان کی قومی اور صوبائی ٹیموں پر نظر ڈالیں، تو ایک ہی سرسری نظر میں ان کی پوری ٹیم کی کم مائیگی، علمی و اخلاقی افلاس، نظریے اور وِژن سے محرومی کی کیفیت سامنے آتی ہے۔ خدا کا قہر و غضب ایسے ایسے افراد صوبائی اور قومی نمائندے اور وزیر و مشیر مقرر کیے گئے ہیں، جو سرد وگرم کشیدہ اور عیار و چالاک بیوروکریسی کے مقابلے میں مکتب کے بچوں سے بھی فروتر اور گئے گزرے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ہمارے صوبے کے وزرا کیا اس کے علاوہ کسی چیز اور مسئلے کا علم رکھتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں برے بھلے طریقے سے استعمال کرکے آئندہ الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنائیں؟ کیا قومی اسمبلی میں وزرا کی گالی گلوچ، ناشائستہ زبان کا استعمال اور آئے روز پریس کانفرنسوں میں جو لب و لہجہ استعمال کرتے ہیں، کیا اس سے ان لوگوں کی اخلاقی بیماری کا پتا نہیں چلتا؟
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔