وہی مرغے کی ایک ٹانگ (کہاوت کا پس منظر)

اپنی بات کی ہَٹ۔ اپنے جھوٹے قول کی پچ۔ بے جا بات کی اَڑ۔ یہ کہاوت اُس وقت بولتے ہیں جب کوئی اپنی بے جا بات پر اَڑا رہے اور قائل نہ ہو۔ اس کہاوت کے تعلق سے بہت سی حکایتیں مشہور ہیں، مگر مآل سب کا ایک ہی ہے۔
کسی صاحب کا باورچی بدنیت تھا۔ ایک روز صاحب نے اُس سے مرغ پکوایا، تو وہ پکے ہوئے مرغ کی ایک ٹانگ نکال کر کھا گیا۔ اس کے بعد اُس نے دسترخواں پر پکا ہوا مرغ رکھا جس میں ایک ہی ٹانگ تھی۔ صاحب نے باورچی سے پوچھا، مرغ کی دوسری ٹانگ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا، حضور یہ مرغ اُس نسل کا ہے جس کی ایک ہی ٹانگ ہوا کرتی ہے۔ صاحب نے ہرچند اُس کو دلائل سے سمجھایا اور قبولوانا چاہا، مگر وہ اپنی ہی رَٹ لگائے رہا۔ آخر میں صاحب مسکرا کر چُپ ہوگئے۔ اتفاق سے ایک روز باورچی کے ساتھ صاحب کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں کچھ مرغ اور مرغیاں دانہ چُگ رہی تھیں۔ حسبِ عادت ایک مرغا ایک ٹانگ سکوڑے ہوئے کھڑا تھا۔ باورچی نے موقع غنیمت جان کر اپنے قول کے ثبوت میں صاحب سے کہا، دیکھ لیجیے۔ یہ مرغ جو سامنے ہے ایک ہی ٹانگ سے کھڑا ہے۔ یہ بھی اُسی نسل کا مرغ ہے جس کی ایک ٹانگ ہی ہوتی ہے۔ صاحب اُس مرغ کے پاس گئے اور ہُش ہُش کرنے لگے۔ ہُش ہُش کی آواز سن کر مرغ دونوں ٹانگوں سے بھاگا۔ اُس وقت صاحب نے باورچی سے کہا۔ اب اس کی دو ٹانگیں کیوں کر ہوگئیں؟ باورچی نے کہا، کیا خوب اگر حضور اُس پکے ہوئے مرغ کے آگے بی ہُش ہُش کرتے، تو وہ بھی دونوں ٹانگیں نکال دیتا۔ غرض وہ اپنے قول سے نہ پھرا۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 294 سے انتخاب)