دو مصنفوں کے لکھے گئے ناولٹ ’’آخر کب تک‘‘ کا تنقیدی جائزہ

’’آخر کب تک‘‘ (1972ء) پاکستانی اُردو ناولٹ کی تاریخ میں اس لحاظ سے واحد ناولٹ ہے جسے دو مصنفین ’’ظہیر ریحان‘‘ اور ’’ایاز عصمی‘‘ نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔
اس ناولٹ میں کچھ ہو نہ ہو…… یہ اس تجربے کی بنیاد پر اس مقالے میں جگہ پانے کا مستحق بن گیا ہے۔
یہ ناولٹ آزاد نثری نظم کے سے انداز میں لکھا گیا ہے۔ اسے مدیر ’’سیپ‘‘ نے ناولٹ کا نام نہ دیا ہوتا، تو میں صرفِ نظر کر جاتا…… لیکن ’’پنچ کہیں بلی تو پھر بلی ہی سہی‘‘ کے مصداق اسے ناولٹ تسلیم کرتے ہی بنی۔
اس کا بنیادی موضوع بھی انسان اور انسانیت ہے۔ یہ عجیب و غریب ناولٹ ہے۔ کہیں یہ علامتی انداز لیے ہوئے ہے اور کہیں کہیں روایتی کہانی کو بھی چھو جاتا ہے۔ غالباً اسے دو دماغوں نے مل کر دو آتشہ بنا ڈالا ہے۔ ناولٹ میں دو نمایاں کردار بمشکل تلاش کیے جو ’’ٹیپو‘‘ اور ’’ایوا‘‘ ہیں۔
’’دور خونخوار درندوں کا شور سنائی دیا۔ بوڑھے پادری نے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا اور دروازہ اچھی طرح بند کر دیا۔ گرجا کے اندر ایک پُرسکون سناٹا تھا۔ البتہ پادری، ٹیپو اور ایوا کے قدموں کی چاپ خاموش فضا میں ہلکا ہلکا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ بوڑھے پادری نے انہیں ایک کوٹھری میں ٹھہرنے کی جگہ دی۔ ’’تم لوگ یہاں اطمینان سے رہ سکتے ہو، یہاں کوئی نہیں آسکتا، بھوک تو لگی ہو گی کچھ کھاؤ گے؟‘‘ دونوں نے گردن کو اثبات میں ہلایا۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے بوڑھا پادری اُن کے کھانے کے لیے کچھ لینے جا رہاتھا کہ اُن کے کانوں میں بے شمار لوگوں کے شور کی آواز گونجی۔‘‘
اس ناولٹ میں افراتفری، بے چینی، خوف و ہراس کی فضا تشکیل دی گئی ہے جو دنیا بھر میں روز بروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ انسان نے زمین پر ہوش سنبھالتے ہی ہر دور میں کسی نہ کسی خوف ہی کا سامنا کیا ہے۔ سب سے پہلے اُسے جانوروں سے خوف آتا تھا۔ بھوک کا خوف بھی تھا۔ انسان نے اپنی ذہانت سے جانوروں کو تو آگے لگا لیا اور وہ انسان سے خوف کھانے لگے۔ اس کے بعد طاقت ور انسانوں نے کم زوروں کو خوف میں مبتلا کر دیا…… جس میں زیادہ خرابی صنفِ نازک کے لیے پیدا ہوئی۔ وہ شکار میں مرد کی پھرتی اور طاقت کا مقابلہ نہ کرسکی اور پیچھے رہ گئی۔ پھر اُس نے گندم کاشت کرکے طاقت کا توازن کسی حد تک اپنے حق میں کیا اور کچن کو اپنا دارالسلطنت بنا لیا…… مگر ان سب تدبیروں کے باوجود وہ مرد کی بالادستی سے محفوظ نہ رہ پائی۔ کبھی عوام کو جادو گر دبا کر رکھتے تھے اور پھر مذہب نے یہ کام کرنا شروع کر دیا اور آج کا انسان سائنس کی غلامی میں آچکا ہے۔
’’حاملہ عورت نے درد و کرب برداشت کرنے کی کوشش میں اپنے ہونٹ کاٹ کاٹ کر لہولہان کر لیے تھے۔ وہ بھی انتہائی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے ساتھیوں کی تدبیریں کامیاب ہوں۔ وہ خودبھی نہیں چاہتی تھی کہ نئے انسان کا جنم ایسی بھیانک گھڑی میں ہو…… لیکن ساری تدبیریں رائیگاں گئیں۔ نئے انسان نے جنم لے لیا…… لیکن فوراً ہی ۹۱ افراد میں سے ایک نے نوزائیدہ کا منh ہاتھ سے داب لیا۔ کہیں وہ رو نہ اُٹھے۔ نیچے سے موت کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ تلاش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ موت، زندگی کو تلاش کر رہی تھی۔ موت زندگی کا منھ زور سے دابے ہوئے تھی۔ بچہ مر گیا۔‘‘
کوئی بے چارگی سی بے چارگی ہے۔ انسانیت کی سب علامتیں ملیا میٹ ہو رہی ہیں۔ کسی کی جان بچانے کے لیے کسی کو جان دینی پڑ رہی ہے۔ یہ دنیا جنگ اور امن کے درمیان شٹل کرتی رہتی ہے۔ جنگ بھی سرمایہ دار کی ضرورت ہے اور امن بھی۔ جنگ ترقی پذیر ملکوں میں اور امن ترقی یافتہ ملکوں میں۔ جب تک اسلحے کی صنعت دنیا میں نمبر ایک ہے…… امن کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔ دنیا کے بڑے چوہدری ممالک سیاحوں کو امن کی گارنٹی دے کر اپنے پاس سیاحت، تعلیم اور کاروبار کے بہانے بلاتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک جو اُن کے مقروض ہیں…… وہاں جانے سے دنیا کو دہشت گردی کے نام پر روکا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہیں، غریب کو پسنے دو۔ اُن کی کرنسی کی قدر کم ہو، تاکہ انہیں سود در سود سے زیادہ سے زیادہ ادا کرنے پڑیں اور وہ کبھی ان کے معاشی چنگل سے نہ نکل پائیں۔ اُن کی نسلیں بھی مقروض رہیں۔
’’سوچ رہی ہوں کہ شادی کے بعد ہماری زندگی کیسی ہوگی؟ یاد رہے مجھے چھوڑ کے تم کہیں جاؤ گے نہیں…… جہاں جاؤ گے مجھے ساتھ لے چلنا ہوگا۔ مَیں ہمیشہ تمہارے قریب رہنا چاہتی ہوں۔ کتنی پیاری اور حسین زندگی ہوگی ہماری وہ زندگی بھی‘‘
’’اور جانتی ہو میں کیا سوچ رہا ہوں؟‘‘
’’اوں ہونہہ! ‘‘
’’میں جب دن بھر کے کام کاج سے تھکا گھر لوٹوں گا، تو دروازے پر کھڑا ہوکر تمہارا نام لے کر آواز دوں گا۔ پاس پڑوس والے اس آواز پر چونک کر میری طرف دیکھیں گے۔ ہمارے یہاں لوگ بیوی کا نام نہیں لیتے ہیں نا۔ پھر تم دروازہ کھولتے ہی میرے گلے میں اپنی بانہیں حمائل کر کے بولو گی۔ آج اتنی دیر کیوں لگا دی؟ میں کہوں گا…… بتاؤ تو میں کیا کہوں گا؟ ’’تم کہو گے، آج کام بہت تھا۔‘‘ ’’نہیں نہیں پگلی۔ میں کہوں گا کہ بھیڑ بھاڑ کے باوجود ایک حسین نظم کہی ہے تمہارے متعلق۔ اسی لیے دیر ہوگئی۔ تم کھلا کھلا کر ہنسی کے پھول بکھیرو گی اور کہو گی، ذرا مجھے بھی تو سناؤ۔ مَیں کہوں گا، اوں ہونہہ۔ ابھی نہیں۔ تم ناز سے پوچھو گی پھر کب……؟ میں کہوں گا جب پاس پڑوس کے محلہ کے لوگ سو جائیں گے۔ اس دھرتی کا ایک آدمی بھی جاگتا نہیں رہے گا۔ اس وقت وہ نظم میں تمھیں سناؤں گا ‘‘ ’’سچ؟‘‘ ایوا مسکراتے ہوئے دھیرے سے بولی۔ بچہ ایوا کے سینے میں چہر ہ چھپائے سو رہاتھا۔ ٹیپو اور ایوا کو بھی نیند آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی سو رہے۔ بہت دنوں بعد دونوں کو سونا نصیب ہواتھا۔‘‘
اس پورے ناولٹ میں اُداسی ہی اُداسی ہے۔ رائیگانی کا دکھ ہے۔ انسان کی بے سرو سامانی ہے۔ ان دونوں ادیبوں کا مشترکہ طور پر ایسی تحریر لکھنا ابتدا میں جیسا حیران کن محسوس ہوا تھا…… ویسا حیران کن اختتام نہیں ہوا۔ اسے پاکستانی اردو ناولٹ کی تاریخ میں اولیت اور انفرادیت ضرور حاصل رہے گی…… جس کے لیے ہم مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی کے ممنون احسان رہیں گے…… جنہوں نے پاکستان میں اُردو ناولٹ کے فروغ میں اپنی جگہ ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جس کی بنیاد پر ناولٹ کی صنف کو نہ صرف اعتبار حاصل ہوا…… بلکہ اسے افسانے سے بڑھ کر اور ناول کے مقابلے میں مانا گیا۔ انہی کوششوں کے باعث پاکستانی اُردو ناولٹ آج ایک قابل قدر سرمایے کا مالک نظر آتا ہے۔
یہ ایک پیچیدہ اُسلوب کا ناولٹ ہے جسے عام قاری کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود اس کی اہمیت ہے۔ اس میں علامتی، نفسیاتی اور شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔