باتونی بسیا (سلاوی لوک کہانی)

ترجمہ: جاوید بسام 
(نوٹ:۔ یہ ایک ’’سلاوی لوک کہانی‘‘ (Salavic folk tale) کا ترجمہ ہے جس کا انگریزی میں عنوان "Chatterbox Basya” ہے، مدیر)
سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ماہی گیر فطرتاً کم گو ہوتے ہیں۔ وہ شکار کے لیے سمندر میں جارہے ہوں، یا تھکے ہوئے ساحل پر واپس آرہے ہوں…… وہ خاموش نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے منھ سے کم ہی الفاظ سنتے ہیں۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہی گیر مچھلیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور مچھلیاں خاموش رہتی ہیں، وہ انسانی آواز کو پسند نہیں کرتیں، وہ ڈر جاتی ہیں…… اسی لیے مچھیروں کی بیویاں بول چال میں بخل کرتی ہیں اور مائیں باتوں میں الفاظ ضائع نہیں کرتیں۔
مگر دیودار کے جنگل میں ہر درخت سیدھا نہیں اُگتا اور نہ مویشیوں کے ریوڑ میں ایسا ہوتا ہے کہ ٹیڑھے سینگوں والی گائے کبھی پیدا نہ ہو۔ ماہی گیروں کے ایک گاؤں میں جو سمندر کے قریب آباد تھا، وہاں ’’بسیا‘‘ نامی ایک لڑکی رہتی تھی…… جس کا عرفی نام چیٹر باکس (بک بک کرنے والی) تھا…… اور لوگ یوں ہی تو عرفی نام نہیں رکھتے۔
بسیا کوئی بری لڑکی نہیں تھی۔ وہ خوب صورت اور نرم دل تھی، لیکن اُس کی آواز میں ایسی گھڑگھڑاہٹ تھی، جس سے چڑیاں اور کوے گھبرا کر باغ سے بھاگ جاتے تھے۔ وہ صبح سے شام تک بولتی رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی بوری سے اناج کے دانے برتن میں گر رہے ہوں۔
جب موسم خراب ہوتا اور سمندر میں جانا ناممکن ہوجاتا، تو اس کے ابا اپنے کان روئی ڈال کر بند کر لیتے، تاکہ بیٹی کی آواز نہ سن سکیں، لیکن بسیا کو اتنی آسانی سے ہرایا نہیں جاسکتا تھا۔ جب وہ دیکھتی کہ ابا اس کی باتوں پر توجہ نہیں دے رہے، تو وہ زور سے چیخ چیخ کر بولنے لگتی۔ آخر بوڑھے مچھیرے کی برداشت ختم ہوجاتی اور وہ کہتا: ’’بہتر ہے کہ تم سیر کے لیے چلی جاؤ۔‘‘
’’ٹھیک ہے……!‘‘ وہ غصے سے کہتی اور برتن، پیالے اور دیگچیاں گرانے لگتی۔ پھر کپڑے بدل کر گاؤں کے لوگوں سے ملنے نکل جاتی۔ وہ ایک پڑوسن سے بات شروع کرتی۔ وہ جلد تنگ آجاتی اور کام کا بہانہ کر کے چل دیتی۔ وہ دوسری کے پاس جاتی، مگر کسی کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔
ایک صبح جب بسیا بیدار ہوئی، تو دیکھا کہ اس کے ابا مچھلی پکڑنے کے اونچے جوتے پہنے سمندر میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ جوں ہی بسیا کی آنکھ کھلی۔ اس کا منھ بھی کھل گیا اور زبان چلنے لگی۔ وہ بولی: ’’ابا ابا……! سنو، مَیں نے کیسا عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک چمچہ میز پر پڑی ہوئی لوہے کی نمک دانی کے گرد اُچھل رہا ہے اور اُسے اپنا خواب سنا رہا ہے۔ چمچے نے خواب دیکھا کہ اُسے نمک دانی نے انگوٹھی دی ہے…… مگر جب چمچہ سو کر اُٹھا تو انگوٹھی نہیں تھی۔ کیا خیال ہے ابا……! چمچے نے خواب دیکھا تھا کہ نمک دانی نے خواب دیکھا تھا…… اور ابا، انگوٹھی تھی یا نہیں……؟‘‘
باپ نے جواب میں صرف سر ہلایا، مگر بسیا نے ہمت نہیں ہاری۔ ’’ابا……! کیا آپ مجھے ویسی انگوٹھی خرید کر دیں گے؟‘‘
’’دفع ہوجاؤ!‘‘ بوڑھے مچھیرے کو آخر غصہ آگیا۔ ’’کم از کم جب مَیں مچھلی پکڑنے جا رہا ہوں، تو خاموش رہا کرو۔ تاکہ مَیں یکسوئی سے اپنا کام کرسکوں۔ اس طرح تو ایک مچھلی بھی جال میں نہیں آئے گی۔‘‘
’’تو نمک دانی نے، چمچ نے کہا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دو…… مجھے اکیلا چھوڑ دو…… اور انگوٹھی میں پتھر سمندر کی لہر کی طرح سبز تھا۔‘‘ بسیا بولنے سے باز نہ آئی۔
باپ نے زور سے زمین پر تھوکا، دروازہ پٹخ کر بند کیا اور چلا گیا۔
بسیا اپنے باپ سے خفا ہوگئی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے تیار ہوئی اور خواب سنانے کے لیے پڑوسیوں کے پاس چل دی، لیکن بسیا کے لیے وہ بدقسمت دن تھا۔ کسی بھی پڑوسن نے اس کی بات نہیں سنی۔ سب اپنے اپنے کاموں میں الجھے تھے۔ انھوں نے بسیا کو ٹال دیا۔
’’کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ میری نظر جہاں تک پہنچ رہی ہے۔ مَیں وہاں تک جاؤں گی، ہوسکتا ہے کہ مجھے اچھے دوست مل جائیں۔‘‘ بسیا نے خودکلامی کی اور چل دی۔
اُس کے اُٹھتے قدم اُسے بہت دور گاؤں سے باہر لے گئے۔ آخر وہ تھک ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی اور بڑبڑاتے ہوئے رونے لگی: ’’مَیں واپس نہیں جانا چاہتی۔ میرے پاس جانے کے لیے کوئی وجہ بھی نہیں۔ وہاں مجھ سے کوئی بات کرنے والا نہیں ۔‘‘
جب وہ رورہی تھی، تو اچانک بہتے آنسوؤں کے پیچھے اُسے ایک نوجوان ماہی گیر جھاڑیوں کا گھٹا اُٹھائے راستے پر آتا نظر آیا۔ وہ بھی ایک مچھیرا تھا اور گاؤں کے مضافات میں پتھروں سے بنی ایک پرانی جھونپڑی میں رہتا تھا۔ اُس کا باپ اُس کی نوعمری میں ہی ڈوب کر مرگیا تھا۔ بعد میں ماں بھی اپنے شوہر کے غم میں مرگئی اور وہ اکیلا رہ گیا۔
نوجوان ماہی گیر بسیا کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ یہاں بیٹھی کیوں رو رہی ہے؟ بسیا کے آنسو ایک دم خشک ہوگئے۔ وہ نیل کنٹھ کی طرح تڑپ اُٹھی اور اپنی تمام شکایات جلدی جلدی بیان کرنے لگی۔
مچھیرے نے جواب دیا۔ یہ کتنی غلط بات ہے کہ وہ آپ سے گفت گو نہیں کرتے اور میرے پاس کوئی گفت گو کرنے کے لیے نہیں۔
پھر کچھ سوچ بچار کی اور بولا: ’’کیوں نہ ہم شادی کرلیں؟ شاید یہ ہمارے لیے ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’شادی کرلیں……؟ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ بسیا نے پوچھا۔
’’ستشک!‘‘ نوجوان مچھیرے نے جواب دیا۔
’’مَیں بسیا ہوں، لیکن نہ جانے کیوں لوگ مجھے چیٹر باکس کہتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ حالاں کہ مَیں زیادہ وقت خاموش رہتی ہوں۔ بھلا بتاؤ، کیا ہم سوتے ہوئے بات کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا ہم کھاتے وقت بات کرسکتے ہیں……؟بس شاذ و نادر ہی جب ہمیں کسی کے سوال کا جواب دینا ہو۔ خیر، مَیں راضی ہوں، لیکن آپ کو میرے والد سے پوچھنا ہوگا۔ کیا آپ ان سے ملنے آئیں گے؟‘‘ بسیا نے پوچھا۔
’’ضرور، مَیں ان سے ضرور ملوں گا۔‘‘
دونوں شام کو پھر ملاقات کا وعدہ کرکے رخصت ہوگئے۔
شام کو ستشک صاف ستھرا لباس پہن کر بسیا کے باپ سے رشتہ مانگنے اس کے گھر آیا۔ اُس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتایا کہ مَیں فلاں ہوں اور مجھے اپنی فرزندی میں قبول کرلیں۔
’’ذرا اس بارے میں غور کرو! ہاتھ کو ہاتھ روک سکتا ہے ، لیکن زبان کو……!‘‘ والد نے کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔ یہ میرے لیے مسئلہ نہیں ہے ۔‘‘ نوجوان ماہی گیر نے کہا۔
’’تمھیں خبردار کرنا میرا فرض تھا، تاکہ بعد میں تم یہ نہ کہو کہ مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ باپ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
ستشک اور بسیا شادی کر کے ایک ساتھ رہنے لگے۔ اُن کی زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ بسیا 10 سوال کرتی۔ وہ صرف ایک کا جواب دیتا، 9 نظر انداز کر دیتا۔ بس ایک چیز بری تھی۔ وہ تنگیِ معاش سے پریشان تھا۔ اس کا جال پرانا تھا۔ کشتی میں کئی سوراخ تھے اور شادی کے بعد گھر میں اب کھانے والے دو منہ ہوگئے تھے ۔ علاوہ ازیں بسیا اچھے کپڑے پہننا بھی پسند کرتی تھی۔
اسی دوران میں طوفانی موسم شروع ہوگیا۔ سمندر غصے میں آیا ہوا تھا۔ سات دنوں تک ہوا سیٹیاں بجاتی رہی اور کناروں پر طوفانی لہریں جھاگ اُڑاتی رہیں۔ اس موسم میں کوئی مچھلی پکڑنے نہیں جاسکتا تھا، یہاں تک کہ اپنی جھونپڑی سے باہر قدم رکھنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ ان دونوں میں ستشک نے کئی بار بوڑھے ماہی گیر یعنی بسیا کے ابا کو یاد کیا۔ بیوی کی مسلسل بک بک سے اس کا سر ہل رہا تھا۔ اُسے طوفان کے تھمنے کا انتظار تھا۔ ساتویں دن کی شام جوں ہی ہوا تھمی۔ ستشک جلدی سے جھونپڑی سے باہر بھاگا۔ اُس نے صرف اتنا کہا: ’’مَیں جا کر دیکھتا ہوں کہ کہیں کشتی ریت میں تو نہیں دھنس گئی؟‘‘
جب ستشک وہاں گیا، تو دیکھا واقعی کشتی میں ریت بھری ہوئی ہے۔ اُس نے کشتی میں سے ریت ہٹائی اور واپس چل دیا، مگر وہ ابھی گھر واپس آنے سے گریزاں تھا۔ اُس نے سوچا کہ مَیں دیر سے گھر جاؤں گا۔ تب تک شاید بسیا سو جائے گی۔ مَیں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ سوتے میں بھی باتیں کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے مَیں ایک خوش قسمت آدمی ہوں۔
ستشک ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اچانک اسے ایک چٹان کے نیچے سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ وہ رُک گیا اور غور کرنے لگا۔ ہاں بالکل کراہنے کی آواز تھی۔ کم زور اور درد بھری۔ اُس نے قریب جاکر دیکھا۔ اُسے چٹان کے نیچے پتھروں کے درمیان ایک عورت نظر آئی…… بلکہ عورت نہیں، سمندر کا ایک عجوبہ۔ اُس کے بال سبز تھے۔ پانی میں سبز گھاس کی طرح ڈولتے ہوئے اور ٹانگوں کی بجائے ایک کھردری پرت دار دم تھی…… جل پری۔ یہ یقینا جل پری ہے اور کچھ نہیں۔ اس نے سوچا۔
’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’اوہ……بس کچھ نہ پوچھو، سخت طوفانی لہروں نے مجھے سمندر کی تہہ سے اُٹھایا۔ کئی دنوں تک مجھے گھماتی رہیں۔ مجھے ریت پر گھسیٹا۔ پھر یہاں پتھروں پر لا پھینکا۔‘‘
’’مَیں تمھاری مدد کرسکتا ہوں۔ ایسا کرو میرے ساتھ چلو۔ میری بیوی تمھارے زخموں کی مرہم پٹی کردے گی۔‘‘ستشک نے کہا۔
’’مَیں کیسے جا سکتی ہوں؟ میری ٹانگیں نہیں ہیں۔ میں صرف تیرنا جانتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے…… پھر میں تمھیں لے چلتا ہوں۔‘‘ ستشک نے کہا۔ اُس نے جل پری کو اٹھایا اور گھر لے گیا۔ باسیا اُسے دیکھ کر خوشی سے کھل اُٹھی۔ آخرِکار اسے ایک ایسی سہیلی مل گئی تھی، جو کسی اور کے پاس نہیں تھی، جس سے وہ اس خدشے س بے نیاز ہو کر بات کرسکتی تھی کہ وہ کہیں چلی جائے گی۔
بسیا نے فوراً جل پری کی دیکھ بھال شروع کردی۔ اُس نے زخموں پر مرہم اور پاؤڈر لگایا اور چوٹوں کی سکائی کی۔ وہ اس پر پانی ڈالتی اور اس کے سبز بالوں میں کنگھی کرتی۔ بسیا کے ہاتھ تیزی اور مہارت سے چلتے تھے اور اس کی زبان تو تھی ہی بہت تیز۔ بس وہ بولتی رہتی اور جل پری کے کانوں میں الفاظ انڈیلتی رہتی۔ جوں جوں دن گزرتے رہے، جل پری صحت یاب ہوتی گئی۔ آخر ایک دن اُس نے سمندر میں واپس جانے کی خواہش کی۔ بسیا آنسو بہانے لگی۔ وہ جل پری سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اُس کی جدائی پر رنجیدہ تھی…… مگر ستشک نے سمندر کے عجوبے کو اپنی بانہوں میں اُٹھایا اور ساحل پر لے گیا۔ پھر وہ گہرے پانی میں گیا اور اُسے چھوڑ دیا۔ جل پری لہروں پر تیرتی ہوئی بولی: ’’مہربان آدمی! آپ کا شکریہ۔ آپ کی بیوی کا شکریہ! وہ اچھی ہے ، مگربولتی بہت ہے۔‘‘
’’یہ بات تو ٹھیک ہے۔‘‘ ستشک نے اُس کی بات کی تائید کی۔ ’’اگر اُس کے ہر لفظ کے عوض مجھے ایک پینی ملنے لگے، تو ہم جلد امیر ہوجائیں۔ مَیں نیا جال خرید لوں اور کشتی کی مرمت بھی کروا لوں۔‘‘
’’یہ تم نے اچھی بات کی۔ ایسا ہونا چاہیے۔ مَیں بہت دیر سے سوچ رہی تھی کہ تمھاری اس خدمت کا کیا صلہ دوں؟ اچھا خدا حافظ!‘‘
’’خدا حافظ!‘‘ ستشک نے کہا۔
پھر جل پری نے اپنی دم لہرا کر چھپاکا مارا اور گہرائی میں چلی گئی۔
پاکستان تاریخ کو قومی مفاد میں بدلنے والا واحد ملک نہیں۔ فلپائن اور بھارت کے علاوہ کچھ دیگر ممالک بھی قومی مفادات کی خاطرتاریخ کے جائز قتل میں شامل ہیں۔
قرار دادِ لاہور ہو، قراردادِ پاکستان ہو، یومِ آزادیِ پاکستان ہو، یومِ پاکستان ہو یا کوئی اور دن اورتاریخ…… انھیں تبدیل کرنے کی کچھ ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
ہم 23 مارچ کو قرار دادِ لاہور، قرار دادِ پاکستان، یومِ پاکستان وغیرہ کے مختلف ناموں سے مناتے ہیں، مگر اس کی اصل روح کو ہم بھول چکے ہیں۔ قراردادِ لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی، 23 مارچ 1940ء کو پیش کی گئی…… لیکن اسے منظور 24 مارچ کو کیا گیا نہ کہ 23مارچ کو۔
یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ اس قرارداد کو دو سیشن میں پاس کیا گیا ہے، نہ کہ ایک سیشن میں۔
قرارداد 23 مارچ کو بنگال کے رہنما جناب فضل الحق صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی۔ پھر محمد ذوالفقار علی خان، سردار اورنگزیب خان اور سر عبداللہ ہارون نے اس کی حمایت کی اور اجلاس اگلے دن تک موخر کر دیا گیا۔
اگلے دن 24 مارچ کوباقی رہنماوں نے اس کی حمایت کی۔ اس کے بعد فلسطین اور خاکسار سانحے پر دو قراردادیں پیش کی گئیں اور پھر سب رہنماؤں نے متفقہ طور پر قرار دادِ لاہور کو منظور کیا۔ اگرچہ قرار دادِ لاہور کو پیش 23 مارچ کو کیا گیا، تاہم اس کو منظور 24 مارچ کو کیا گیا ہے۔
قراردادِ لاہور میں پاکستان کا نام قطعاً شامل نہ تھا۔ ہندو میڈیا نے طنزیہ یہ نام شامل کیا اور اِسے قرار دادِ پاکستان کے نام سے شائع کیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہندو میڈیا نے محمد علی جناح کو طنزیہ قائداعظم کے نام سے پکارا تھا۔
مسلمانوں کے لیے قراردادِپاکستان کا نام بڑا پُرکشش تھا اور انھوں نے اِسے قراردادِ پاکستان ہی کے نام سے پکارنا شر کر دیا۔
قارئین! اِس قرار داد کے کچھ دیگر دلچسپ پہلو بھی ہیں۔ قراردادِ لاہورمیں لفظ ریاست یا ریاستیں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ بھی بحث طلب نکتہ ہے۔ البتہ قرارداد کے اصل مسودے میں تو لفظ ریاستیں موجود تھا،تاہم 1941ء کو مدارس کے اجلاس میں پیش کیے جانے والے مسودے میں جمع (ریاستیں) کی بجائے واحد لفظ (ریاست) موجود تھا۔
کچھ محققین کے مطابق لفظ ریاستیں جمع کی صورت میں لکھا جانا ایک کلریکل غلطی تھی، جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ کچھ رہنما برصغیر میں دو الگ مسلم ریاستوں کے نظریے کے قائل تھے۔ بعض کے بقول لفظ ریاستیں جمع لکھنے سے مراد پاکستان اور ہندوستان کی دوریاستیں تھیں۔
بہرحال بعد کے مسودوں میں لفظ ریاستوں کی بجائے ریاست ہی استعمال کیا گیا ہے۔
لفظ ریاست کے حق میں ایک مضبوط دلیل یہ بھی موجود ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقاریر اور تحاریر میں ریاست کا لفظ جمع کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ قائداعظم کی تمام تقریروں اور بیانات میں ’’آزاد مسلمان ریاست‘‘ اور ’’آزاد وطن‘‘ کے الفاظ واحد حالت میں موجود ہیں۔
قرار دادِ لاہور کو پاکستان کی تاریخ میں ’’فادر‘‘ دستاویز کا مقام حاصل ہے۔ کیوں کہ یہ وہ واحدقرار داد ہے جسے تمام رہنماؤں نے متفقہ طور پر منظور کیا اور یہ قیامِ پاکستان کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئی۔
اس قرارداد کی یاد میں مینارِ پاکستان تعمیر ہوا جو 8 سالوں میں مکمل کیا گیا۔
قراردادِ لاہور کے 450 الفاظ مینارِ پاکستان پر کنندہ کیے گئے ہیں۔ ان میں پاکستان کا ذکر ہے اور نہ اسلام کا۔
اس قرار داد کا مسودہ محمد ظفراللہ خان نے تیار کیا اور مولانا ظفرعلی خان نے اُردو میں اس کا ترجمہ کیا۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا کے مطابق ایک لاکھ کے مجمع میں بغیرکسی صوتی نظام کے اس قرار داد کو مولوی فضل الحق نے بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔
پاکستان کے پہلے آئین میں پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔
پاکستان کا پہلا آئین بھی 23 مارچ 1956ء کو پاس ہوا۔ اُس دن کو تب ’’ری پبلک ڈے‘‘ یعنی یومِ جمہوریہ کا نام دیا گیا۔
1956ء ہی میں آئین کی معطلی اور مارشل لا کی وجہ سے جمہوریت کو سکندر مرزا نے گھر کی راہ دکھا دی، تو یومِ جمہوریہ کیسے منایا جاتا! اپنی بے شرمی کو چھپانے کے لیے اِس کا نام ’’یومِ جمہوریہ‘‘ سے بدل کر ’’یومِ پاکستان‘‘ رکھ دیا گیا۔
یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ اس قرار داد کو پیش کرنے اور آغاز میں حمایت کرنے والے ارکان میں بنگال کے رہنما سب سے آگے تھے۔ 23 مارچ کو قراردادِ پاکستان، یومِ پاکستان یا قراردادِ لاہور منانے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ 1940ء تا 47ء کے عرصے کے دوران میں قائد اعظم نے اسی دن عوامی اجتماعات منعقد کیے۔ اسی دن انھوں نے پیغامات دیے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا 1956ء کا آئین اگرچہ 23 مارچ سے پہلے تیار کر لیا گیا تھا، مگر اسے 23 مارچ تک لاگو کرنے سے روکا گیا۔
ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری 1950ء کو تیار نہیں ہوا تھا، بلکہ آئین کو اُسی تاریخ کو لاگو کیا گیا…… تیار یہ پہلے ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1930ء میں اسی تاریخ کو لاہور میں کانگرس نے قراردادِ آزادی پیش کی تھی…… جسے وہ سالہا سال سے یومِ آزادی کے طور پر مناتے چلے آرہے تھے۔ اگر بھارت اپنے قومی مفادات کے لیے تواریخ میں ردوبدل کر سکتا ہے، تو پاکستان نے بھی قومی مفادات کے لیے 24 مارچ کو 23 مارچ میں بدل دیا۔ قوم کو اختلاف سے بچانے اور یگانگت کے لیے 23 مارچ کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کافی تاریخیں ایسی ہی جنھیں تبدیل کیا گیا ہے، جس میں سب سے اہم یومِ آزاد ی پاکستان کی تاریخ میں تبدیلی ہے۔
بھارت میں 26جنوری کو ہر سال ’’یومِ جمہوریہ‘‘ منایا جا تا ہے، مگر پاکستان میں پہلا یومِ جمہوریہ محض 30 ماہ کی قلیل عمر میں وفات پاگیا۔ ایوب خان نے اس کو ’’یومِ پاکستان‘‘ کے طور سے منانے کا اعلان کیا اور یوں 23 مارچ کو ’’یومِ پاکستان‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
1947ء تا1956ء کبھی نہ تو 23 مارچ منایا گیا اور نہ اس دن چھٹی ہی ہوا کر تی تھی۔
اس طرح یومِ آزادیِ پاکستان کی تاریخ کو بھی قومی مفاد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ماونٹ بیٹن نے سرکاری طور پر اختیارات 14 اگست کو اپنی تقریر کے ذریعے پاکستان کے حوالے کر دیے تھے، تاہم وہ جسمانی طور پر بیک وقت کراچی اور دہلی میں موجو دنہیں ہوسکتا تھا۔ قانونِ آزادیِ ہندوستان کے مطابق دونوں ممالک کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو آزاد ہونا تھا۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں گورنر ہاؤس پر پاکستانی پرچم 15اگست کو بلند کیا گیا۔ قائداعظم اور اُن کی کابینہ نے حلف لیا۔
یوں اگلے پورے 6 سال تک پاکستان 15 اگست کو ہی یومِ آزادیِ پاکستان منایا جاتا رہا۔
1954ء کو بہترین ملکی اور قومی مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ ہم اپنا یومِ آزادی 15 کی بجائے 14 اگست ہی کو منائیں گے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک کے ایک ہی دن یومِ آزاد ی منانے سے یہ بات سمجھاتا مشکل تھا کہ یہ ایک ہی دن دونوں ممالک کیسے آزاد ہوئے؟
دوسری وجہ شاید بھارت کے ساتھ یومِ آزادی منانے سے ہمارا تشخص واضح نہیں ہو پارہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے