اس خبر کو سیاسی حلقوں میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں جناب عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
دیکھا جائے، تو پاکستانی سیاست میں یہ ایک بڑا بریک تھرو ہے۔ عمران خان اقتدار میں تھے، تو وہ سیاست دانوں کو خاطر میں نہیں لایا کرتے تھے۔ جب بھی اُن سے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاتی، تو وہ اس بات کو سختی سے رد کردیا کرتے تھے۔ وہ اپنے علاوہ پورے ملک کے باقی تمام سیاست دانوں کو کرپٹ کہتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ ہاں، اگر کوئی سیاست دان اُن کی مخالفت چھوڑ کر عمران خان کے کیمپ میں آجاتا، تو اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اُسے ’’مسٹر کلین‘‘ کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کر دیا جاتا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہ اُنھیں ’’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ کہا کرتے تھے، لیکن جب پرویز الٰہی نے اُن کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا، تو وہ ’’نہائے دھوئے‘‘ ڈکلیئر کر دیے گئے۔ یہاں تک کہ اُنھیں عمران خان نے پنجاب کا وزیرِ اعلا بنوا دیا۔ مزید مہربانی اُن پر یہ کی گئی کہ پی ٹی آئی کی مرکزی صدارت بھی چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے کر دی گئی۔ کسی پی ٹی آئی ورکر یا لیڈر نے خان صاحب سے یہ سوال پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ ناک کا بال اور آنکھ کا تارا کیوں بنا لیا گیا؟
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
عمران خان کے بارے میں یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہ بہت ضدی ہیں اور جس بات پر اَڑ جائیں، پھر اُنھیں اُس بات سے ہٹانا مشکل ہوجاتا ہے، مگر دیکھا جائے تو یہ صرف اُڑائی ہوئی بات ہے، ورنہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ سیاسی اختلاف کی مثال ہی لے لیں۔ عمران خان نے اُس سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدل دیا تھا۔ وہ مولانا فضل الرحمان کو ’’مولانا‘‘ ماننے سے بھی انکاری تھے اور اُن سے اپنی ناپسندیدگی کو نفرت کی انتہا تک بھی لے گئے تھے۔ اپنی تقاریر میں وہ اُنھیں ’’ڈیزل‘‘ کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے کرپٹ کہا کرتے تھے۔ پھر وقت نے عمران خان کو مولانا فضل الرحمان کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ جناب اسد قیصر کی قیادت میں پی ٹی آئی کے سرکردہ راہ نماؤں کو مولانا فضل الرحمان کے در پر جانا پڑا۔ اُنھیں مولانا نہ ماننے والوں کو جب مولانا فضل الرحمان کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھنا پڑی، تو یقینا اُن کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں مولانا کے خلاف اپنے لیڈر کی مہم جوئی پر شرمندگی محسوس ہو رہی ہوگی۔ عمران خان کے خلاف مولانا فضل الرحمان کی اس سے بڑی جیت کیا ہوگی کہ اب تک جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو خود چل کر مولانا کے پاس جانا پڑا ہے۔ جے یو آئی (ف) کا کوئی وفد پی ٹی آئی کے پاس نہیں گیا۔
ہاں! یاد آیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین محمود خان اچکزئی کی نقلیں بھی جلسوں میں اُتارا کرتے تھے۔ آج وہی محمود اچکزئی اپنے ناقد کی سیاسی کشتی کے ملاح بنے ہوئے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ایکس (ٹویٹر) پر پابندی، ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟  
اُبھرتے ایشیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟  
جعلی ادویہ اور ہم  
گندم سکینڈل، حکومت کہاں کھڑی ہے؟  
صوبائی خود مختاری کیوں ضروری ہے؟  
وقت بڑے بڑے سورماؤں کی رعونت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ کل تک عمران خان سیاست دانوں اور حکومت کو بے اختیار کَہ کر اُن کے ساتھ مذاکرات کرنے سے یک سر انکاری تھے۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے، لیکن دوسری طرف سے اُنھیں صاف جواب دے دیا گیا۔ آج عمران خان سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات پر نہ صرف آمادہ ہیں، بل کہ اس بارے میں سپریم کورٹ کو خط بھی لکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ عمران خان کا جمہوریت پسند ہونا یا آئین و قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنا نہیں، بل کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار ہے۔
9 مئی کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں عمران خان کم زور پوزیشن میں ہیں۔ اُنھیں یہ بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اگر وہ اپنے موجودہ موقف پر ڈٹے رہے، تو جیل سے اُن کی رہائی ممکن نہیں۔ حکومت اور خاص طور پر مقتدرہ کے پاس ہمیشہ بہت سے آپشن ہوا کرتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کیس کھلتا چلا جائے گا۔ جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ چاہے جتنی بھی آسایشیں میسر ہوں، قید اور آزادی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ حریف پر دوڑ کر چھلانگ لگانے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس بات کی عمران خان کو سمجھ آ گئی ہے، لیکن ابھی یہ کام اتنا آسان نظر نہیں آ رہا۔ اب حریف اُنھیں موقع دینے کو تیار نہیں۔ عمران خان تو مذاکرات پر آمادہ ہیں، لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمادہ نہیں۔ محترمہ شیریں مزاری نے یہ کَہ کر اپنی پارٹی کا موقف واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کو کبھی سیاسی لوگوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑی ہے، نہ اُنھیں اس کی عادت ہی ہے، جب کہ مسلم لیگ ن کے راہ نما جناب خرم دستگیر نے کہا ہے کہ عمران خان مذاکرات کے ذریعے این آر اُو مانگ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے جرائم معاف کر دیے جائیں۔ جناب خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ وہ ایسے مذاکرات کے حق میں نہیں۔
سیاسی مسائل ہمیشہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں۔ مکالمہ نہ کیا جائے، تو حبس اور گھٹن میں اضافہ ہوتا ہے۔ مکالمہ گھٹن زدہ ماحول میں ہوا کا ٹھنڈا جھونکا ثابت ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ملک اور قوم کو اپنی اپنی انا کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے اُلجھنوں کو سلجھا کر ملکی تعمیر و ترقی کا عزم لے کر آگے بڑھیں۔ 25 کروڑ عوام کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کی عملی کوشش کریں، جو سیاسی لڑائیوں کے نتیجے میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر عمران خان جیسا مغرور شخص وقت کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے، تو ان کے حریف ایسی کئی شکستوں کا ماضی میں مزا چکھ چکے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔