ارسطو کا قول ہے جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، وہ ان سے زیادہ عزت مند اور قابل احترام ہیں جو بچوں کو پیدا کرتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ والدین بچوں کو صرف زندگی دیتے ہیں اور اساتذہ ان کو زندگی کا گُر سکھاتے ہیں۔
استاد کے احترام اور عزت پر ساری دنیا کے لوگ متفق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ہر سال پانچ اکتوبر کو یومِ استاد مناتی ہے۔ پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے 1994ء کو یومِ استاد منایا، جس کا مقصد اساتذہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کی کارکردگی کا تجزیہ کرکے ان میں بہتری لانا ہے۔
دنیا میں ابتدا سے لے کر اب تک جو انقلابات رونما ہوئے ہیں، ان تمام میں اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک معلم تھے۔ انھوں نے حضرت جبرائیل کے ذریعے اللہ سے سیکھا۔پھر ان ہدایات اور احکاماتِ خداوندی کو اپنے ساتھیوں کو سکھایا اور اس کے بعد ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ اس طرح انھوں نے مدینہ میں سماجی انصاف پر مبنی ایک مثالی ریاست قائم کرکے ایک تاریخی اور لازوال انقلاب بر پا کیا۔
موزے تنگ جوچین میں تبدیلی کے روح رواں تھے، بھی ایک استاد تھے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے پاکستان کے غریب عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے لڑنا سکھایا اور وطنِ عزیز میں ایک تاریخی تبدیلی کی داغ بیل ڈال دی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا تھا، وہ کراچی کے ایک لا کالج میں قانون کا مضمون پڑھاتے تھے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ استاد تبدیلی کا آزمودہ محرک ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی جدید تعلیم کی مرہونِ منت ہے اور زمانے کے تقاضو ں کے عین مطابق تعلیم صرف استاد ہی ممکن بنا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ آج کل جن معاشی، تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہے، اس جمود کو استاد اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے توڑ سکتا ہے۔ آج یومِ استاد اس لیے منایا جا رہا ہے، تا کہ استاد کی قابلِ قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ ان کے شان دار نتائج کو اجاگر کرکے حاضرِ سروس اساتذہ میں تحریک پیدا کی جائے ۔
میں پاکستان اور برطانیہ کے بہت سے تعلیمی اداروں میں پڑھ چکا ہوں اور ان اداروں کے پیشہ ور،محنتی اور مخلص اساتذہ سے بہت سیکھ چکا ہوں۔ آج میں جس مقام پر کھڑا ہوں، اس کا سارا کریڈٹ میرے مشفق والدین اور قابل صد احترام اساتذہ کو جاتا ہے اور اساتذہ کے اس خصوصی دن کی مناسبت سے میں اپنے اس مضمون کے ذریعے ان کے ساتھ محبت اور عقیدت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے ان اساتذۂ کرام کا ذکر نہایت ضروری سمجھتا ہوں، جنہوں نے مجھے قرآن شریف اور دوسری چھوٹی چھوٹی دینی کتابیں پڑھائیں۔ ان میں ایک محمد زرین پراچہ کی والدہ صاحبہ مرحومہ اور دوسرے غلام خان مرحوم تھے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ میں عزت گل مرحوم، محمد علی، اقبال شالدا، فضل الرحمان عرف بابو دادا مرحوم، فضل اکبر صاحب، عبدالعزیز مرحوم، بخت روان الہ ڈھنڈ ڈھیرئی، بلند اقبال، امیر رحیم مرحوم، کریم اللہ خان صاحب، عبدالباری صاحب، نعیم الدین، مجید خان مرحوم، محمد اشرف، ارشد، عبدالطیف مرحوم، شفیق اور سوزن (یوکے) شامل ہیں۔ اس لسٹ میں اگر محمد اکرام (خان جی) کا ذکر نہ کروں، تو یہ نا مکمل ہوگی۔ وہ پیشے کے لحاظ سے استاد نہیں تھے، لیکن انہوں نے ہمیں فزکس کا مضمون بہت عمدہ طریقے سے پڑھایا۔
جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یومِ استاد کا مقصد صرف اساتذۂ کرام کی تعریفیں کرنا نہیں، یونیسکو کے چارٹر کے مطابق اساتذہ کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض اور ذمہ داریوں کا احتساب بھی کرنا چاہیے اور ان میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مثبت تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ مثلاً پڑھانے کے طریقۂ کار میں تبدیلی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے اکثر اساتذۂ کرام پڑھانے کے دوران میں طلبہ کو بحث میں شامل نہیں کرتے اور اس طرح طلبہ کی تخلیقی صلاحیت اور مکالمہ کی اہلیت پروان نہیں چڑھتی۔ کلاس میں ٹیچر ٹائم اور سٹوڈنٹس ٹائم کا تناسب چالیس نسبت ساٹھ رکھ کر طلبہ کی مذکورہ صلاحیتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے، جس سے تعلیم کا مروجہ معیار بہتر بنانے میں خاصی مدد ملے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ استاد عظیم ہے اور اس کا کام مقدس ہے۔ اس کا احترام ہم سب پر لازم ہے، لیکن استاد کو بھی اپنے بلند منصب اور عظیم کام کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانا چاہیے، تاکہ ہمارے بچے ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں اور بحیثیت قوم ہم ترقی کرسکیں۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔