میاں گل عبدالودود اور سنڈاکئی بابا دونوں کی جانب سے انکار کے بعد لوگوں نے پھر عبدالجبار شاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس نے یہ دعوت قبول کی اور اپریل 1915ء کے اختتام کے قریب وہ سوات آگیا۔ 24 اپریل 1915ء کو اُسے سوات کا بادشاہ بنادیا گیا۔
بالا آخر سوات کی علاحدہ ریاست کا قیام عمل میں آگیا اور عبدالجبار شاہ (1880ء تا 1956ء) کو اُس کا پہلا بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ اُسے ایک مشکل کام سونپا گیا۔ اُسے اپنی حاکمیت قائم کرنی تھی، ایک فوج تشکیل دینی تھی اور اپنی رعایا کی توقعات پر پورا اتر نا تھا۔ اس سب کے حصول کے لیے مدبرانہ حکمت عملی، مہارت، احتیاط، سمجھ بوجھ اور اپنے لوگوں کی تائید درکار تھی۔
باہر کا آدمی ہونے کی وجہ سے اُس کی پوزیشن کمزور تھی۔ یہاں نہ تو اُس کا اپنا کوئی ڈلہ (دھڑا) تھا اور نہ ہی اُس کی جڑیں اس خاک میں پیوست تھیں۔ اُس سے لوگوں کی وفاداری بھی مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی تھی۔ اصل طاقت سنڈاکئی بابا اور جرگہ کے ہاتھ میں تھی۔ میاں گل اپنے روحانی سلسلہ نسب اور اثرورسوخ کی وجہ سے اپنے علاحدہ عزائم رکھتے تھے۔ دوسری طرف نوابِ دیر بھی ایک مضبوط حریف کی شکل میں ہر دم موجود تھا، جسے برطانوی حکومت کی پشتیبانی بھی حاصل تھی، اورجو سوات میں اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کو دوبارہ قبضہ میں لینے کے لیے کسی بھی وقت میدان میں کودسکتا تھا۔ میاں گلوں کے علاوہ بھی سوات میں کچھ ایسے سرکردہ لوگ تھے جواُ سے ناپسند کرتے تھے، جن کے اپنے مقاصد اور ایجنڈے تھے۔ اُسے مختلف حریف قبائل، نافرمان لوگوں اور خوانین کے درمیان ایک قسم کا توازن برقرار رکھنا تھا۔ لوگ ایک منظم نظام اور نظم و نسق کی جگہ گروہی شکل کی زندگی کے عادی تھے۔ پہلے نہ تو کوئی مستحکم حکومت رہی تھی نہ کوئی لازمی ضابطۂ قانون تھا جوکہ کسی بھی کامیاب حکومت کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے برطانوی حکومت سوات کے حالات کے بارے میں چوکنی، محتاط اور بدظنی کاشکار تھی۔ عبدالجبار شاہ کا ابتدا میں اُن سے تعلق وفادارا نہ تھا لیکن بعد میں نوابِ دیر اور میاں گلوں کے مقابلہ میں اُس کی حیثیت ان کی نظر میں خاصی کمزور تھی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 60 تا 62 سے انتخاب)