گزرے وقتوں میں پاکستان کی برآمدات میں خام چمڑا اور چمڑے سے بنائی گئی اشیا ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھیں، مگر گذشتہ تین چار سالوں سے چمڑے کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیاہے۔ اس سال بھی عید الاضحی میں قربانی کے جانوروں کی اچھی کوالٹی والی لاکھوں کھالیں ضائع ہوگئیں۔ پاکستان میں چمڑے کی پیداوار اور برآمدات کے اعداد وشمار رکھنے والے ادارے ٹی ڈی اے کے مطابق سال 2012-13ء مالی سا ل میں خام چمڑے سے 1145 ملین ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہوا تھا جوکہ بتدریج کم ہوکرسال 2016-17ء میں صرف 552 ملین ڈالر کی سطح تک گرگیاہے۔ اس طرح برآمدات میں یہ شرح تیرہ فیصد سے کم ہوکر صرف چار اعشارہ سات فیصد تک آ گئی ہے۔ اس صورتحال سے واضح طورپر مقامی تاجروں اور چمڑے کے کاروبار سے وابستہ مزدوروں پر اثر پڑا ہے۔
مینگورہ بازارمیں گذشتہ چالیس سالوں سے پاکستان کے دیگر شہروں جن میں لاہور اور گوجرانوالہ شامل ہیں، خام چمڑا سپلائی کرنے والے تاجر حاجی بختور خان کا کہناہے کہ تین سال قبل وہ دس ہزار سے زائد کھالیں چھوٹے بڑے تاجروں سے خریدتے تھے۔ ان کو چمڑا صاف کرنے والے کارخانوں کو سپلائی کرتے تھے، مگر امسال انہوں نے صرف تین ہزارکھالیں خریدی ہیں، جن میں صرف بڑے جانوروں کی کھالیں شامل ہیں۔ان کے بقول، ’’بھینس کی کھال کسی وقت میں 3 ہزار سے 4ہزار روپے کے عوض ہم خریدتے تھے، جس کی قیمت کم ہو کر آٹھ سو روپے تک گر چکی ہے۔ا س طرح گائے اور بیل کی کھالیں ہم ہزار سے بارہ سو روپے کے عوض خریدتے تھے، جو گھٹ کر دو سوروپے تک آگئی ہیں۔ بکری اور بھیڑ کی کھالیں تین سو روپے کے عوض خریدتے تھے، اب صرف تیس روپے تک اس کی قیمت گر چکی ہے۔ ہم نے ہزاروں بھیڑ اور بکریوں کی کھالیں ضائع کردی ہیں۔‘‘ انہوں مزید نے کہاکہ پنجاب اور سند ھ میں چمڑا صاف کرنے والے زیادہ تر کارخانے بند پڑے ہیں۔ ’’ایک کارخانے میں کم از کم پانچ ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ ہم ان کارخانوں کا ڈیمانڈ تک پورا نہیں کرسکتے تھے، مگر اب حال یہ ہے کہ کوئی ہم سے مال نہیں خریدتا۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی، تو آئندہ سال قربانی کے جانوروں کی کھالیں ٹھکانے لگانے کے لیے لوگ جیب سے خرچہ دیں گے۔‘‘
صورتحال کی نوعیت کا اندازہ مینگورہ بازارمیں ایک اور تاجر انور اللہ کو سننے کے بعد بخوبی ہوجاتا ہے۔ اس حوالہ سے ان کا کہناہے کہ ان کے باپ دادا برسوں سے چمڑے کا کاروبارکرتے چلے آرہے ہیں۔ ’’پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور عیدِ قرباں پر صحت مند اور موٹاچمڑا کارخانہ داروں کو ملتاہے، جوکہ دنیابھرمیں بہترین اور اچھی کوالٹی کا چمڑا سمجھا جاتاہے۔ ان کے بقول وہ بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کھالیں خرید کر جمع کرتے تھے، مگر امسال کاروبار خراب ہونے کی وجہ سے پنجاب کے کارخانہ دار ان کا فون تک نہیں اٹھارہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ عیدالاضحی پر ان کاکاروبار خوب چمکتا تھا۔ وہ سال بھر کی محنت کا صلہ عید کے بعدحاصل کرتے تھے۔ ’’ہمارے ساتھ سیکڑوں مزدور اور چھوٹے کاروباری لوگ وابستہ ہیں۔ ان کو بھی اچھی خاصی آمدنی مل جاتی تھی، مگر اب یہ کاروبار تباہی کی طرف گامزن ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت دس سال قبل چمڑے کی درآمدات پر کارخانہ دراوں کو تیرہ فیصد سبسڈی دیتی تھی، اب یہ سبسڈی ختم کردی گئی ہے۔ ’’اس طرح حکومتی ادارے خاص کر ’’ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘‘ کا ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں، جس کی وجہ سے ہر سال پاکستان کے اربوں روپے ضائع ہورہے ہیں۔ چمڑے کے کاروبار سے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ نہ صرف خام چمڑا ملک سے باہر جاتا تھا بلکہ اس سے بنائی گئی اشیا جن میں کھیلوں کا سامان اور ملبوسات شامل ہیں، بڑی تعداد میں برآمد کی جاتی تھیں، مگرحکومت کی عدم توجہی کی باعث اب عالمی مارکیٹ میں چائینہ، انڈیا اور بنگلہ دیش کی اشیا فروخت رہی ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ چائینہ کا لیدر کوٹ بازارمیں پندرہ سورپے کا ملتاہے جب کہ پاکستان کالیدر کوٹ تین سے چارہزار روپے میں فروخت کیاجاتاہے۔ اس کی وجہ سے بھی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چمڑے کے کاروبار کی طرف توجہ دی جائے۔ ’’امسال ہم نے اپنے رسک پر ڈھائی تین ہزار کھالیں اُن لوگوں سے خریدی ہیں جن کا ذریعۂ معاش صرف کھالیں فروخت کرنا ہے۔ ہم امید سے ہیں کہ شائد نئی حکومت اس کاروبارکی طرف توجہ دے اور ایک مرتبہ پھر لاکھوں لوگوں کاکاروبار چل پڑے۔‘‘
مینگورہ شہر کے چمڑے کی ایک منڈی میں کام کرنے والے مزدوروں کا کہناہے کہ کاروبار میں مندی کی وجہ سے ان کی مزدوری پر بھی بڑا اثرپڑا ہے۔ مزدور اپنی عید چھوڑکر بڑی عیدپر سخت محنت کرکے کافی رقم کما لیتے تھے، مگراب وہ دور گزرگیاہے۔ خراب مارکیٹ کی وجہ سے مزدوروں کی مزدوری بھی گھٹ گئی ہے جب کہ کئی مزدور کام نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔
پاکستان میں برآمدات کو بڑھانے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے۔ تقریباً ہرضلع میں اس کا ایک بڑا دفتر بھی ہوتاہے۔ اس طرح ضلع سوات میں بھی ’’ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘‘ جسے عرفِ عام میں ’’ٹی ڈی اے پی‘‘ کہاجاتاہے، کا دفتر سیدوشریف شگئی میں فعال ہے۔ جب اس دفتر کے ڈپٹی ڈائریکڑ افتخار احمد خان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، تو موصوف نے کہاکہ افسروں کی طرف سے میڈیا کے ساتھ انٹرویوکی اجازت نہیں۔ ’’انٹرویو کے لیے باقاعدہ میڈیاکو ایک عدد درخواست دینا ہوگی۔ درخواست اسلام آباد بھیجوائی جائے گی اور بعدمیں انٹرویودینے کا فیصلہ ہوگا۔‘‘ موصوف کے بارے میں معلوم ہوا کے وہ وزارتِ داخلہ سے برآمدات والے ادارے میں ٹرانسفر ہوئے ہیں او ر سوات کے پُرفضا مقام میں موجود برآمدات بڑھانے والے دفترکی نگرانی پر مامور ہیں۔ تاہم مختلف ویب سائٹس پر موجود سرکاری معلومات کے مطابق حکومت پاکستان نے گذشتہ کئی سالوں سے صوبۂ پنجاب اور سند ھ میں چمڑا صاف کرنے والے کئی کارخانوں کو اس وجہ سے بند کردیاگیا ہے کہ ان میں مختلف کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں جوکہ ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس وجہ سے خام چمڑے کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ کاروبارمندی کا شکارہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک جن میں چین، انڈیا، بنگلہ دیش عالمی مارکیٹ میں کم دام پر خام چمڑا فراہم کررہے ہیں، اس وجہ سے پاکستانی چمڑے کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی چمڑا اب بھی بہترین کوالٹی کا ہے اور اس کاروبار کو دوبارہ پرانی سطح پر لانے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں چمڑے سے بننے والی اشیا کے ڈھیر سارے کارخانے ہیں اور ان اشیا کی اب بھی عالمی منڈیوں جن میں یورپ، امریکہ اور روس شامل ہے، میں بڑی مانگ ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔