میں نے بچپن میں اپنے مدرسہ کے ایک قاری صاحب سے عجیب سی کہانی سنی تھی۔ اسے اپنے الفاظ میں اگر بیان کرنے کی کوشش کروں، تو نقشہ کچھ یوں کھنچے گا:
ایک دن کسی بزرگ نے خواب میں دوزخ کا ماحول دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑے میدان میں ڈھیر سارے کنویں ہیں جن میں کسی کے اندر آگ دھک رہی ہے، کسی کے اندر بچھو اور سانپ ہیں، تو کسی کے اندر کڑاکے کی سردی ہے۔ ہر کنویں کے پاس کسی نہ کسی ملک کا بورڈ لگا ہے اور ساتھ ہی ایک فرشتہ بطور چوکیدار بھی مستعد کھڑا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک کنواں ایسا بھی تھا جس کے ساتھ کھڑے بورڈ پر ’’مملکت خداداد‘‘ کا نام درج پایا۔ اچھنبے کی بات یہ تھی کہ اس پر کوئی فرشتہ کھڑا نہیں تھا۔ بزرگ کے بقول انہیں یہ دیکھ کر کسی حد تک طمانیت کا احساس ہوا اور ساتھ یہ خوش فہمی بھی کہ شائد ہم دیگر ملکوں سے کم گناہگار ہیں۔ بزرگ آگے کہتے ہیں کہ میں نے امریکہ کے گناہگاروں کا کنواں دیکھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں دہکتی آگ میں بھی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں۔ کاندھے کی مدد سے دوسرے دوزخی کو کنویں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو کنویں سے باہر نکلنے میں تقریباً کامیاب ہوتا ہے، تو اوپر کھڑا فرشتہ اُسے لات مار کر واپس نیچے پھینک دیتا ہے۔ بزرگ کے بقول تمام ملکوں کے کنوؤں کا ایک جیسا حال تھا، ایسے میں بزرگ کو یہ دیکھ کر کرید سی شروع ہوجاتی ہے کہ کیوں نہ اپنے ملک کے کنویں کا جائزہ لیا جائے۔ کہیں یہ خالی تو نہیں؟ وہاں جاکر ان کا ایک عجیب سی صورتحال سے سامنا ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ نیچے کنویں میں کئی دوزخی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ اگر کوئی بمشکل کنویں سے نکلنے میں کامیاب ہونے کے قریب بھی ہوتا ہے، تو دوسرا اس خیال سے اس کا پاؤں پکڑ کر اسے نیچے کھینچ لیتا ہے کہ بھئی، ہم تکلیف میں ہوں گے اور تو مزے کرے گا؟ بزرگ کے بقول یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھلتی ہے، اور اس پر ملک عزیز کی خستہ حالی کا راز افشا ہوجاتا ہے۔
جولائی کے آخری ہفتہ میں دو دن کالام میں گزارنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب تک ہم پختون زندہ ہیں، ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہید میں ذکر شدہ کہانی ہم پختونوں اور خاص کر اہلِ کالام پر صادق اترتی ہے۔ پہیلیاں بھجوانے سے بہتر ہوگا کہ سیدھا مطلب کی بات کی جائے۔ دراصل صوبائی حکومت نے ’’کالام بیوٹی فی کیشن پلان‘‘ کے لئے خطیر رقم مختص کرکے اہلِ کالام کی زندگی بدلنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ عمران سرکار چاہتی ہے کہ کالام کو جو حسن خدائے لم یزل نے دیا ہے، اسے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہو۔ اس مقصد کے حصول کیلئے عمران سرکار نے بارہ سو پچیس ملین (ایک ارب بائیس کروڑ پچاس لاکھ) روپے مختص کیے ہیں۔ اس پلان میں کالام کے اندر تمام سڑکوں کی پختگی، ریسٹ ایریاز کی تعمیر، کالام مین بازار کی خوبصورتی، فوڈ سٹریٹس، فلاور مارکیٹس اور کرکٹ گراؤنڈ (جس کے لئے اہلِ کالام ایک انچ زمین دینے کو تیار نہیں) شامل ہیں۔ عمران سرکار نے وادیٔ کالام کو دلہن کی طرح سجانے کی خاطر تمام ٹھیکیداروں کو چودہ اگست کی ڈیڈ لائن دی ہوئی ہے، مگر اس عظیم مقصد کے حصول میں جتنی مشکلات درپیش ہیں، وہ کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ خود اہلِ کالام کی طرف سے ہیں۔
میں اور فضل خالق صاحب (ڈان میڈیا) کالام کے بازاروں میں گھومے، گلی کوچوں میں کالام کے عام عوام کو کریدا۔ وہاں جاری کام کا بغور اور ہر زاویے سے جائزہ لیا۔ بخدا، مجھے وہاں ایک بات بہت کھٹکی اور وہ یہ کہ آج تک نہ صرف اہلِ کالام بلکہ ضلع سوات کے تمام لوگ سوات کی ترقی کے بالعموم اور کالام کے بالخصوص خواہش مند تھے، اب جب عمران سرکار کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اتنی خطیر رقم کالام کی ترقی کے لئے مختص کی ہے، تو اَب ذاتی مفاد آڑے آ رہا ہے۔ کالام کا ایک ملک کہتا ہے کہ یہ جو سڑک میں پتھر کا استعمال ہو رہا ہے، یہ مجھ سے کیوں نہیں خریدا جا رہا؟ دوسرا ملک کہتا ہے کہ میرے بندوں کو کیوں کام پہ نہیں لیا جارہا۔ تیسرے ملک کو گاڑیاں کرایہ پر نہ لینے کی شکایت ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک ملک صاحب کو وقعت دی جائے، تو دوسرا سیخ پا ہوجاتا ہے۔ پشتو کی کہاوت ’’پہ یو دوہ کی اٹالہ یو‘‘ کے مصداق بات نہیں بن رہی۔
میں اپنی اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کے ذریعے سب سے پہلے عمران سرکار کا ممنون ہوں کہ معلوم تاریخ (ریاستِ سوات کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد) میں پہلی بار کالام کی ترقی میں کسی نے اتنی دلچسپی لی۔ میں ایک قوم پرست آدمی ہوں، اپنے نظریات اور اپنے اصولوں پر سودے بازی میرے لئے موت کے برابر ہے۔ عمران سرکار سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، میں اُن کے اِس کارِخیر کے بعد بھی ووٹ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے ہزار بار سوچوں گا، مگر جو قدم عمران سرکار نے کالام اور اہلِ کالام کی تبدیلی کے لئے اٹھایا ہے، اس کا شرف ہمارے بڑے بڑے قوم پرست لیڈروں اور پارٹیوں کو حاصل نہ ہوسکا۔ اس حوالہ سے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا
کام کرنے سے بات بنتی ہے
جاتے جاتے اتنا ہی عرض کروں گا کہ اگر ذاتی مفاد اور محض سیاسی دکانیں چمکانے کے عمل کو بالائے طاق نہ رکھا گیا، تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم ترقی کرسکیں گے۔ میں اپنے نظریات اور اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔ اچھا کام چاہے کوئی بھی کرے، اسے اچھا کہنا ہوگا۔ اس کے ساتھ برے عمل کی اگر روک تھام نہیں کرسکتے، تو نشاندہی تو کم ازکم کرنا ہوگی۔ بقول شاعر
وفا کا ذکر کریں گے جفا کو پرکھیں گے
خموش رہ کے نہ گزرے گی زندگی ہم سے
ایک بات اور، اگر کسی کے پاس غبن یا بدعنوانی کا کوئی ثبوت ہو، تو ’’دا گز او دا میدان۔‘‘ لفظونہ ڈاٹ کام حاضر ہے۔ خالی خولی باتوں سے ہم اپنی سیاسی دکان ہی چمکا سکتے ہیں، اہلِ کالام کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔