2013ء کے سالانہ انتخابات میں خان گل بھی ڈش انٹیناکے ذریعے ٹی وی پر مختلف پاکستانی نیوز چینلز دیکھتے تھے۔
پتا نہیں کب عمران خان کے انتخابی منشور اور تقاریر سے متاثر ہوئے۔ ان کے بچے ابھی زیر تعلیم تھے، وہ اور اُن کی اہلیہ جو ناخواندہ تھی، بھی عمران خان کے انتخابی منشور اور تقاریر اور نوے دنوں میں تبدیلی سے متاثر ہوئی۔ اس لئے خان گل نے اہل خانہ سے مل کر عمران خان کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے علاقہ سے جس شخص کو عمران خان نے صوبائی اسمبلی کا اُمیدوار نامزد کیا تھا، وہ خان گل کا جاننے والا اور قریبی گاؤں کا خان تھا۔ اس سے پہلے انتخابات میں خان گل اپنے ڈلہ (برادری) کے شخص کو ووٹ دیتے چلے آرہے تھے، لیکن خان گل کی گھر کی خواتین ووٹ ڈالنے نہیں جاتی تھیں۔ 2013ء کے انتخابات میں خان گل نے ملک اور صوبوں کی ترقی، خوشحالی اور ’’نوے دن میں تبدیلی‘‘ کے لئے پہلی بار اپنی خواتین کو بھی پولنگ سٹیشن بھیجا اور اُن سے انصاف کے لئے ووٹ ڈلوایا، جس پر خان گل پر کچھ قریبی حلقوں اور خاندان کی طرف سے تنقید بھی ہوئی۔ نتائج آنے کے بعد تحریک انصاف تو قومی اسمبلی میں اکثریت نہ پا سکی، لیکن خیبر پختون خواہ میں اس نے حکومت قائم کی۔ ایک دن خان گل حجرے میں بیٹھے تھے کہ علاقہ کے مشران نے ان کو کہا کہ آپ نے برادری کو ووٹ نہ دے کر اچھا نہیں کیا۔ خان گل نے جواباً کہا کہ میں نے اس ملک اور صوبے میں تبدیلی کے لئے ووٹ دیا ہے۔ حجرے میں بیٹھے ایک بزرگ نے خان گل کو کہا کہ انتخابات میں یہ سیاسی تقاریر ہوتی ہیں اور ہر اُمیدوار عوام کو سبز باغ ہی دکھاتا ہے۔ جواباً خان گل نے بزرگ اور حجرے میں موجود لوگوں کو بتایا کہ اب صوبائی حکومت عمران خان کی ہے اور
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
کچھ عرصہ بعد میں آپ سے اُس وقت پوچھوں گا جب اس صوبہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ صوبائی حکومت کی تشکیل کے بعد خان گل کے صوبائی حلقہ سے منتخب ہونے والے ایم پی اے کو صوبائی وزیر بنا دیا گیا، جس پر خان گل کو اور بھی خوشی ہوئی۔
خان گل کا خیال تھا کہ اب صوبے کی تقدیر بدلنے کے ساتھ اُن کے علاقہ اور گاؤں کی تقدید بھی بدل جائے گی، اُن کے علاقہ کی سڑکیں تعمیر ہوں گی، سکولوں کی اَپ گرےڈیشن ہوگی، ہسپتالوں میں ڈاکٹر اب کام کریں گے، و علی ہذا القیاس۔ رات کو حجرے میں بیٹھک کے دوران میں خان گل مشران کو بتاتا تھا کہ اب تو صوبے کے ساتھ اُن کا علاقہ بھی ترقی کرے گا۔ کچھ افراد خان گل جیسے بھولے بادشاہ کی باتوں کا یقین کرلیتے تھے اور کچھ حجرے میں اُن سے اختلاف کرتے تھے کہ پاکستان میں ایسی سیاسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
خیر، وقت گزرتا گیا۔ کچھ ماہ بعد دھرنے شروع ہوگئے۔ وزیر اعلیٰ سمیت خان گل کے حلقے کے وزیر تک سارے ممبرانِ اسمبلی اسلام آباد دھرنا میں ہوتے تھے۔ صوبے میں کوئی سرکاری فائل پر دستخط بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایسے میں ایک دن حجرے میں خان گل سے کسی نے پوچھا کہ خان گل اب تو سارے وزرا، مشیر دھرنے میں ہیں، یہ کام کون کرے گا؟ خان گل نے حجرے میں بیٹھے افراد کو تسلی دی کہ دھرنا ختم ہونے کے بعد جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔
دھرنے ختم ہوئے۔ وزرا واپس اپنے دفاتر پہنچے، کام شروع ہوا لیکن مرغی کی وہی ایک ٹانگ۔ خان گل کو اب احساس ہونے لگا کہ صوبے میں تو کچھ نہیں ہورہا اور نہ ہی اُن کے علاقہ میں۔ ایک دن ان کو معلوم ہوا کہ اُن کے علاقہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر گھر اپنے حجرے میں موجود ہیں، خان گل دوڑے دوڑے صوبائی وزیر کے حجرے پر حاضری دینے لگے۔ صوبائی وزیر نے نوکروں سے خان گل کے لئے چائے پانی کے خصوصی انتظام کا کہا۔ خان گل نے صوبائی وزیر سے کہا کہ میں نے آپ کی حکومت کے حوالہ سے حجروں میں ڈھیر سارے دعوے کئے ہیں اور مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی کام نہیں ہو رہا۔ صوبائی وزیر نے جواباً خان گل کو یقین دلایا کہ صوبے میں ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ ایک ارب درخت لگائے جا رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں نظام ٹھیک کرنے کے لئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ہسپتالوں کے نظام کو ٹھیک کرانے کے لئے گورننگ بورڈ قائم کیا گیا ہے۔ خان گل نے دوبارہ پوچھا کہ ہمارے علاقے کی سڑکوں کا کیا ہوگا؟ صوبائی وزیر نے اُن کو یقین دلایا کہ تمام روڈ انہوں نے بجٹ میں شامل کر دیئے ہیں اور جلد سب کام ہو جائیں گے۔ اس طرح صوبائی وزیر نے خان گل سے یہ بھی کہا کہ آپ علاقہ کے مشر ہیں اور میں آپ کا سر نیچا نہیں ہونے دوں گا۔ خان گل نے اُس رات بھی حجرہ میں گاؤں کے لوگوں کو یقین دلایا کہ صوبے میں کام جاری ہے اور علاقہ کی سڑکوں، ہسپتال اور سکولوں کی حالت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔
وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔ کچھ سال بعد ایک دن حجرے میں لوگوں نے خان گل سے پوچھا کہ صوبائی حکومت کو چار سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اب تو نئے انتخابات ہونے کو بھی کچھ مہینے رہ گئے ہیں، وہ تبدیلی تو نظر نہیں آرہی جس کے دعوے کئے جا رہے تھے۔ خان گل نے بھی چار و ناچار اُن سے اتفاق کیا اور بالآخر اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ اس کے بعد خان گل نے ہر جگہ اپنے علاقہ کے صوبائی وزیر اور صوبائی حکومت کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیں۔ جب صوبائی وزیر کو معلوم ہوا، تو وہ خان گل کے حجرے پر گیا۔ خان گل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ وہ پھٹ پڑا اور وزیر محترم سے پوچھا کہ کہاں ہے وہ تبدیلی جس کی آپ باتیں کیا کرتے تھے؟ صوبائی وزیر نے قدرے تحمل سے کہا کہ ہم نے صوبے میں احتساب کمیشن قائم کیا ہے، کروڑوں درخت لگائے ہیں، حیات آباد میں فلائی اُوور بنایا ہے، چکدرہ تک ایکسپریس وے کی تعمیر جاری ہے اور ہم نے صوبے کے تمام اداروں میں اصلاحات لانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن خان گل صوبائی وزیر کی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا اور ہر بات پر ناراض دکھائی دیا۔ صوبائی وزیر نے خان گل سے کہا کہ خان صاحب چلو آپ بتا دیں کہ ہسپتالوں اور سکولوں میں تبدیلی آئی ہے کہ نہیں؟ خان گل بادل نخواستہ مسکرایا اور صوبائی وزیر سے جواباً پوچھا کہ کچھ عرصہ پہلے آپ بیمار ہوئے تھے، آپ علاج کے لئے کہاں گئے تھے؟ صوبائی وزیر نے بنا سوچے علاقہ میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کا نام لیا اور کہا کہ وہاں میرا علاج ہوا تھا۔ خان گل نے کہا کہ میں بھی تین ماہ قبل بیمار ہو اتھا اور اس ہسپتال میں علاج کیا تھا۔ خان گل نے ایک بار پھر وزیر محترم سے پوچھا کہ آپ کے چاروں بچے کس سکول میں پڑھتے ہیں؟ صوبائی وزیر نے اپنے علاقہ کے ایک اچھے پبلک سکول کا نام لیا۔ خان گل نے کہا کہ میرے بچے بھی اُسی سکول میں پڑھتے ہیں۔
خان گل نے صوبائی وزیر سے کہا کہ جب آپ اور میں بیمار ہوں گے اور سرکاری ہسپتال میں علاج کے لئے جائیں گے اور جب آپ کے اور میرے بچے علاقہ کے سرکاری سکول میں پڑھنا شروع کردیں گے، تو تبھی میں سمجھوں گا کہ واقعی ہسپتال اور سکولوں کا نظام ٹھیک ہوا ہے۔
اس بات پر حجرے میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ اس کے بعد صوبائی وزیر نے اجازت مانگی۔ خان گل اور حجرے میں موجود افراد صوبائی وزیر کے ساتھ حجرے کے دروازے تک گئے اور ان کو باعزت طریقے سے رخصت کیا۔