جغرافیائی سیاق و سباق کے بغیر کسی بھی قسم کی تاریخ کو سمجھنا آسان نہیں، اس لیے کسی منظم سائنسی تجزیہ کے لیے علاقہ اور وہاں کے عمومی ماحول کا علم انتہائی ضروری ہے۔
موجودہ خیبرپختونخوا میں سر سبزو شاداب وادئی سوات 34O-40′ سے 35O شمالاً اور 72O سے’ 74O.6شرقاً واقع ہے۔ دریائے سوات اور پنج کوڑہ کا سنگم جوکہ اس کا نقطۂ آغاز ہے، سطحِ سمندر سے دو ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ بلندی شمال میں واقع چوٹیوں تک پہنچتے پہنچتے پندرہ ہزار سے لے کر بائیس ہزار فٹ تک ہوجاتی ہے۔
سوات ایک دوسرے سے مختلف دوعلاقوں میں تقسیم تھا۔ سوات کوہستان، جوکہ تمام تر پہاڑی علاقہ ہے اور جو دریائے سوات اور اُس کے معاونین کے بالائی تسلسل کے ساتھ ساتھ جنوب میں آئین تک ہے اور دوسرا ہے سوات خاص۔ سوات خاص بھی برَ اور کُوز یعنی بالا اور زیریں میں تقسیم ہے۔ بر سوات آئین سے لنڈاکے تک ہے اور کوز سوات لنڈاکے سے کلنگئی تک جوکہ دریائے سوات اور پنج کوڑہ کے سنگم سے چند میل اوپر کی طرف واقع ہے۔ اے ایچ میک مےھن اور اے ڈ جی رمزے نے برطانوی عہد میں ان دو حصوں کا تذکرہ کیا ہے۔
تاہم ایچ ڈبلیو بیلیو نے وادئی سوات کی ایک اور طرح تقسیم بتائی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وادئی سوات کو تین مقامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ رانیزئی، کوز سوات اور بر سوات۔ رانیزئی کے مشرق میں الہ ڈھنڈ سے چارباغ تک کُوز سوات تھا اور وہاں سے وادی کے اختتام تک شرقاً جہاں یہ غوربند کے کوہستان سے ملتا ہے برَ سوات تھا۔ اس سمت میں کوہستان کے دامن میں آخری گاؤں چُرڑئی واقع ہے جسے اب مدین کہا جاتا ہے۔ تاہم کوہستانی، جِنکی خیل سے آگے آئین تک علاقہ کو کوہستان کا حصہ گردانتے ہیں۔ کچھ برطانوی رپورٹوں میں بھی اسے کوہستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ خدکزئی، ابازئی، وادئی تالاش، اور ادین زئی علاقہ بھی سوات خاص کا حصہ تھا۔ البتہ سوات خاص کے مغربی حصہ کو یعنی کلنگئی سے لنڈاکے تک جودریا کے بائیں جانب واقع ہے، سوات اور دیر ایجنسی کے زیرِ حفاظت علاقہ میں شامل کر لیا گیا۔ جس میں بعد میں 1897ء میں چترال کو بھی شامل کرلیا گیا۔ جسے عرفِ عام میں ملاکنڈ ایجنسی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کا انتظام برطانوی حکومت کا یہاں پر تعینات پولی ٹیکل ایجنٹ کرتا تھا۔
ریاستِ سوات کے وجود میں آنے کے بعد مذکورہ بالا زیرِ حفاظت علاقہ کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ یہاں پہلے سے ہی برطانوی حکومت کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا نظام موجود تھا۔ خدکزئی، ابازئی، وادئی تالاش اور ادین زئی، جوکہ وادئی سوات ہی کا ایک حصہ تھا اور جو اس دریاکے دائیں جانب شموزئی سے آگے غرباً واقع ہے، اسے 1922ء میں ادین زئی معاہدہ کے تحت نوابِ دیرکے حوالہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ برطانوی حکومت نے لاگو کیا تھا۔ نتیجتاً دریا کے بائیں جانب وہ وادی جو لنڈاکے سے شمال مشرق میں ہے اور دائیں جانب جو علاقہ ادین زئی اور شموزئی کی سرحد تک ہے، سوات کہلایا۔ اس کی مزید ذیلی تقسیم یوں ہوئی کہ لنڈاکے سے شمال مشرق میں واقع گاؤں چارباغ اور ننگولئی تک بالترتیب دریا کے بائیں اور دائیں دونوں جانب کے علاقہ کو کوز سوات کہا جانے لگا۔ اس کے شمال شمال مشرق کی طرف وادی کے اختتام تک کا سارا علاقہ بر سوات کہلایا۔ بعد میں جب ریاست کی سرحدوں میں توسیع کا عمل شروع ہوا، تو اس وادی سے باہر کے علاقے جیسے خدوخیل، کانڑا اور غوربند کی وادیاں اور اباسین کوہستان کا کچھ حصہ بھی اس میں ملا لیا گیا اور ریاست سے باہر کے لوگ ان علاقوں کو بھی سوات کہنے لگے۔ اس کے بعد سے سوات کا نام سوات خاص کے ساتھ دیگر تمام علاقوں کے لیے بھی مستعمل ہوگیا۔
سوات خاص اور سوات کوہستان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دونوں کا رقبہ پانچ سے چھے ہزار مربع میل تک ہے۔ یہ غلط ہے۔ اس لیے کہ ریاست سوات کا کُل رقبہ تقریباً چار ہزار مربع میل تھا۔ اس میں وادئی سوات کا وہ علاقہ جو اس سے کاٹ دیا گیا تھا اور جو کہ لنڈاکے سے جنوب مغرب کی جانب واقع ہے، شامل نہیں لیکن وہ سارے علاقے جو سوات خاص سے باہر ہیں لیکن جنہیں قبضہ کرکے ریاست میں ملالیا گیا تھا، اس میں شامل ہیں۔ جیسے بونیر، خدوخیل، کانڑا، غوربند وادیاں اور دریا کے دائیں جانب والا اباسین کوہستان۔ اس طرح یہ وادئی سوات خاص اور سوات کوہستان کو ملاکر بننے والے علاقے سے کہیں کسی بڑے علاقے پر مشتمل تھا۔ بہرحال دریائے سوات کی اپنی وادی طولاً 130 میل اور عرضاً بالعموم 12 میل سے زیادہ نہیں۔ خوشحال خان خٹک اس علاقہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وادی لمبائی میں 30 کروہ سے زیادہ جب کہ اس کی چوڑائی تقریباً دو کروہ ہے۔ ہیون سانگ کہتا ہے کہ ایک دائرہ میں واقع یو ۔چانگ۔ نا تقریباً پانچ ہزار لی یا اندازاً 833 میل ہے۔ لیکن یہ بات بھی وادئی سوات کے رقبہ سے میل نہیں کھاتی۔ ایک نئے مطالعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ وادئی سوات کا رقبہ تقریباً 2,374.7مربع میل ہے جوکہ 3,798مربع کلومیٹر بنتاہے، لیکن ماخذ مفقود ہونے نے اس دعویٰ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
اگرچہ ریاستِ سوات کا کل رقبہ 4000 مربع میل تھا لیکن 1972ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق یہ رقبہ 4715 مربع میل ہے جب کہ 1951ء کی مردم شماری کے مطابق ریاستِ سوات کا رقبہ 2934 مربع میل اور کالام یعنی سوات کوہستان کا وہ علاقہ جسے سوات کے حکمران نے 1954ء میں قبائلی علاقہ تسلیم کرلیا تھا جو کہ وفاق پاکستان کا حصہ ہے، اُس کا رقبہ 822 مربع میل ہے۔ اس طرح ان دونوں کو ملا کر رقبہ 3756 مربع میل بنتا ہے۔
وادئی سوات خاص کے جنوب میں ایلم سلسلہ کوہ اور اُس کا مغرب کی سمت پھیلاؤ ہے جوکہ ہزارنو تک ہے۔ مغرب میں اس کی حدبندی اتمان خیل پہاڑیوں اور باجوڑ نے کردی ہے۔ شمال میں لَڑم پہاڑیاں ہیں، جو غرباً اور شرقاً کامرانی اور منجے پہاڑیوں تک پہنچ گئی ہیں جب کہ اس کے مشرق میں غوربند کی چوٹی ہے۔ لیکن ریاستِ سوات کی حدیں شمال مشرق اور شمال میں باالترتیب گلگت ایجنسی اور ریاستِ چترال اور شمال مغرب میں ریاستِ دیر سے ملتی تھیں اور اس کے جنوب مغرب اور جنوب میں باالترتیب دیر، سوات، چترال ایجنسی کا زیرِ حفاظت علاقہ جسے عرف عام میں ملاکنڈ ایجنسی کے نام سے پکارا جاتا تھا اور ضلع مردان تھے۔ جب کہ اس کے مشرق میں ضلع ہزارہ تھا۔
مختلف درّوں نے وادیٔ سوات کو اپنے ہمسایہ علاقوں اور وسطِ ایشیا، جنوبی ایشیا اور چین سے مربوط کردیا ہے۔ جنوب اور مشرق میں ملاکنڈ، مورہ، شاہ کوٹ، کڑاکڑ، چوراٹ، جواڑئی، کلیل اور کوٹکے جب کہ مغرب سے شمال مشرق کی طرف سوات کوہستان کے میدانی راستہ کے علاوہ شمال اور مغرب کے مشہور درے جاروگوسر، قادر کنڈو، منجے کنڈو، اور شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف کاٹگلہ ہے۔
سترہویں صدی میں خوشحال خان خٹک اُن چند مشہور اور اہم راستوں کا ذکر کرتے ہیں جو اسے اُس وقت کی ہمسایہ بڑی سلطنتوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں: ’’ایک راستہ ہندوکش کی پہاڑیوں میں سے ہوکرترکستان کی طرف جاتا ہے جب کہ دوسرا چترال اور پھر آگے بدخشان کو نکل جاتا ہے۔ ایک اور راستہ پٹن کی طرف سے کا شغر کو جاتا ہے جبکہ ایک اور مورنگ (مورہ؟) کی طرف سے نیچے میدان کو جاتا ہے۔‘‘
کسی زمانہ میں گندھارا اور ہندوستان جانے کے لیے جنوب مغرب میں واقع شاہ کوٹ درہ سب سے اہم تھا لیکن انگریزوں نے 1895ء میں چترال جانے کے لیے اپنی اہم ترین شاہراہ کے طورپر ملاکنڈ کے راستہ کو اختیار کیا۔ دوسرے اہم درّوں میں سے چین جانے کے لیے مشرق میں کوٹکے درہ تھا، جہاں سے موجودہ شمالی علاقہ جات میں سے گزرکر راستہ چین کو جاتا ہے۔ سوات کوہستان میں وادی کے انتہائی آخری حد سر دَزے پہاڑی کے قریب کا درّہ جو کہ چترال سے گزر کر کاشغر جانے والوں کے استعمال میں رہا ہے اور افغانستان اور وسطِ ایشیا جانے کے لیے کاٹگلہ درہ۔
سوات زیریں کے پہاڑ سیلی شس (سیلی کون والی چٹان)، فلٹک شِسٹ (سنگ تراشی کے قابل پتھر)، ایمفی بولائٹ، ڈولومائٹ (متغیرہ چٹان)، پلوٹونک (عمیق ترین چٹان)، گرینائٹ (سخت ترین چٹان)، لائم سٹون (چونے کا پتھر) اور سنگِ مرمر سے بنے ہیں۔ سوات بالا کی وادی (خوازہ خیلہ اور کالام کے درمیان) میں پلوٹونک راکس نے ایک چوڑی پٹی سی بنا دی ہے۔ یہ گرینائٹ، ڈیورائٹ (کھردری دانہ دار داخلی چٹان) گیبرو اور پیگما ٹائٹز (گہرے رنگ کی عمیق ترین آتشیں چٹان) پر مشتمل ہے۔ کالام میں موجود چٹانیں میٹا سیڈ یمنٹری (ثانوی چٹان) اور پلوٹونک راکس (آتشیں چٹان) نوعیت کی ہیں جن میں گرین میلائٹ (متغیرہ چٹان)، ہارن بلینڈ (ایک قسم کی معدنی شے) اور کوارٹزایٹ (چقماق) وغیرہ شامل ہیں۔ سوات خاص میں زمرد اور چائنا کلے کے ذخائر ہیں جب کہ سنگ مرمر بڑی مقدار میں بونیر میں پایا جاتا ہے۔ لیکن ریاستِ سوات کے دور میں زمرد کے علاوہ دیگر ذخائر سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
چترال کے قرب و جوار کی اونچی گھاٹیوں سے نکل کر دریائے سوات اپنے سرچشموں سے جنوب جنوب مغرب میں چکدرہ کی طرف بہتا ہے۔ وہاں سے جنوب مغرب میں ملاکنڈ وہاں سے شمال مغرب میں پنج کوڑہ سے اپنے سنگم اور وہاں سے دوبارہ جنوب مغر ب کی سمت حتی کہ امبھار سے جا ملتا ہے۔ پھر وہاں سے جنوب مشرق میں ضلع پشاور کے ابازئی تک جا پہنچتا ہے۔ یہی دریا، سوات کے اندر تجارتی لکڑی کی ترسیل اور اسے باہر لے جانے کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ دریائے سوات اور اُس کے معاونین نہ صرف سوات کو پانی فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ علاقہ کے لیے انتہائی قیمتی قدرتی وسیلہ و ذریعہ کاکام دیتا ہے۔ اور اس سے سوات کے باہر کے علاقوں کو بھی فائدہ پہنچتا رہا ہے۔قدرتی چشمے، برف اور پگھلتے گلیشئر مل کر دریائے سوات کو مسلسل زندہ رکھتے ہیں۔ موسمِ گرما میں یہ ایک سیلابی ریلہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اپریل میں اس کا پانی چڑھنا شروع ہوتا ہے اور اسے عبور کرناممکن نہیں رہتا۔ ستمبر میں یہ اُترنا شروع ہوجاتا ہے اور موسمِ سرما کے وسط میں اسے ہر جگہ سے عبور کیا جاسکتا ہے۔
(کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، صفحہ نمبر 26 تا 30، ناشر شعیب سنز پبلشرز جی ٹی روڈ سوات سے انتخاب)