بیس جولائی 2015ء کا عام سا دن تھا۔ جھلسا دینے والی گرمی زوروں پر تھی۔ اہلِ سوات کے لیے یہ عید الفطر کا تیسرا دن تھا جب کہ سوات سے باہر چوتھا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر راج ولی خان خٹک (مرحوم) عید منانے اپنے بیٹوں کے ہمراہ سوات آئے ہوئے تھے۔ ان کا پیارا پوتا بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابھی ان سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ البتہ حیدر علی شاہ باچا نے فون پر ڈاکٹر صاحب کے آنے کی اطلاع پہلے سے دی ہوئی تھی۔ میں ظہر پڑھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ملنے رحیم آباد میں حیدر علی شاہ باچا کے دیرے پر گیا۔ وہاں ڈاکٹر صاحب، اُن کے بیٹوں اور پوتے سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کرنے میں کچھ وقت لیا۔ مدین، بحرین تو ہر کوئی سیر کے لیے جاتا ہے لیکن ہم نے سیر کے لیے ایک خاموش اور پُرسکون وادی مرغزار میں شیراترف درے میں جانا مناسب سمجھا۔ اس لیے کہ ایک تو یہ مینگورہ اور سیدوشریف کو نزدیک پڑتا ہے، دوسرا یہ کہ سرسبز و شاداب کھیت، پہاڑوں، چشموں اور صاف و شفاف ندی نالوں میں یہ جگہ اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اصل میں سیاحوں کے لیے سوات کا ہر گوشہ پُرلطف و پُرسکون ہوتا ہے، لیکن باہر سے آئے ہوئے سیاحوں کو صحیح طور پر گائیڈ نہیں کیا جاتا۔ اس لیے سیاح صحت افزا مقامات دیکھنے سے رہ جاتے ہیں۔ شیراترف، سپل بانڈی جانے کا ہمارا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کی خواہش تھی کہ سوات میں ایک پُرفضا مقام پر رہنے کے لیے ایک گھر ہو جو مرکزی شہر مینگورہ کو قریب پڑتا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بچوں کے ساتھ مستقل طور پر سوات میں رہنے اور آباد ہونے کا مدتوں سے تہیہ کر رکھا تھا۔ اس لیے اس روز ہم نے اُن کو یہ سائٹ دکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک ایک علمی و ادبی شخصیت تھے، دانشور تھے۔ یہاں انہوں نے ’’سواتیالوجی‘‘ پر کام کرنا تھا اور اس کے لیے ہم نے ایک اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ شیراترف کے لیے ہمارا قافلہ دو گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر صاحب میں ایک یہ خوبی بھی تھی کہ اُن کے بچے اُن کے دوست ہوا کرتے تھے۔ بچے بھی ایسے جو علم و ادب میں ایک دوسرے سے آگے تھے۔ وہ جب بھی سوات آتے تھے۔ اُن کے تین چار بیٹے اُن کے ہمراہ ہوتے تھے۔ ہمارے اس قافلے میں اُن کے علاوہ راقم، نثار علی شاہ باچا، حمزہ باچا، جان عالم اور پیر اکبر بلند بھی شامل تھے۔ جب ہم سپل بانڈیٔ گاؤں پہنچے، تو وہاں کی ایک تاریخی مسجد کو دیکھنے کے لیے ہم نے موقع مناسب سمجھا۔
سپل بانڈی گاؤں کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ پورے گاؤں میں یہ ایک ہی مسجد ہے جو تین ساڑھے تین سو سال پرانی ہے۔ یہاں دوسری کوئی مسجد نہیں جو اہلِ علاقہ کے آپس میں اتحاد و اتفاق کا ایک بین ثبوت بھی ہے۔ ویسے یہ گاؤں میاں نور ؒ بابا کی اولاد کے لیے مخصوص ہے۔ مرغزار کا پورا درہ ان لوگوں کے لیے مختص ہے۔ سپل بانڈیٔ کی اس تاریخی مسجد کی تزئین و آرائش میں میرے دوست شوکت شرار آرکیٹیکٹ کا کافی حصہ ہے بلکہ اُن کو یہ احساس تھا کہ اگر اس کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو مستقبل کے لیے محفوظ رکھا جائے، در و دیوار بھی صدیوں پرانی ہوں اور آنے والے زمانے کے دست برد سے اسے محفوظ کیا جائے، تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوگی؟ مسجد کو دیکھتے ہوئے ہمیں شوکت شرار کو داد دینا پڑی۔ میں نے شرار کو فون کیا کہ ہم آپ کے گاؤں مسجد دیکھنے آئے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی داد دے رہے ہیں۔ انہوں نے جواباً کہا کہ میں اس وقت گل بانڈیٔ میں ہوں۔ آپ چائے کے لیے گل بانڈیٔ آجائیں۔ اس طرح ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون دیتے ہوئے کہا کہ شوکت شرار صاحب ہمیں چائے کے لیے بلا رہے ہیں۔ آپ اُن سے خود ہی بات کرلیجیے۔ ڈاکٹر صاحب نے شوکت شرار صاحب سے معذرت کی کہ ہمیں آج ہی واپس جانا ہے۔ چائے پھر کبھی سہی۔ اس کے بعد شیراترف کے قرب و جوار کی ہم نے خوب سیر کی۔ خالی پلاٹ یا پختونوں کے روایتی گھر (مٹی اور پتھروں سے بنے ہوئے تیار مکان) کی بھی بات چلی۔ یہ کام نثار باچا کے حوالے کیا گیا کہ آئندہ ’’وزٹ‘‘ پر اس کو رکھا جائے۔ واپسی میں ہم نے درے کی مشہور شخصیت میاں ایوب کے ہاں اُن کے فارم میں لسّی کا لطف اٹھایا۔ باتوں باتوں میں زبیر توروالی کا ذکرِ خیر ہوا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ اگر آپ چاہیں، تو میں بحرین کے زبیر توروالی سے فون پر آپ کا رابطہ کراسکتا ہوں۔ انہوں نے ہاں میں جواب دیا، تو میں نے اُنہیں ملا لیا۔ زبیر توروالی سے ڈاکٹر صاحب نے ضروری باتیں کیں۔ پھر جب ہم واپسی میں سیدوشریف پہنچے، تو نثار باچا نے گاڑی کا رُخ سوات سرینہ ہوٹل کی جانب موڑ لیا۔ وہاں ہم نے کچھ دیر کے لیے سرینہ ہوٹل کے پرانے حصے میں والئی سوات، بادشاہ صاحب، وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان شہید کی تصویروں والی گیلری بھی دیکھی۔
چائے پینے کے بعد شام ڈھلے ہم واپس حیدر علی شاہ باچا کے حجرے میں پہنچے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے دوا لی۔ سفری سامان کو گاڑی میں رکھا۔ ریاستِ سوات کے صد سالہ مجوزہ کانفرنس کے بارے میں باتیں ہوئیں اور شام پونے سات بجے ڈاکٹر صاحب نے ہم سے رخصت لی۔ یوں وہ واپس پشاور کے سفر پر روانہ ہوئے اور میں نے گھر کی راہ لی۔ ابھی رات سونے کے لیے میں نے کپڑے تبدیل ہی کیے تھے اور ابھی میں بستر پر ٹھیک طریقے سے دراز بھی نہیں ہوا تھا۔ سونے کے لیے میں نے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ حیدر علی شاہ باچا کے فرزند حمزہ باچا کا فون آیا۔ انہوں نے دل خراش اطلاع دی کہ راستے میں ڈاکٹر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ جانبر نہیں ہوسکے۔ یہ سن کر میں میرے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے۔ اُنہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ جب میرے حواس بحال ہوئے، تو میں نے حیدر علی شاہ باچا کا فون ملایا۔ وہاں اُن کے رونے کی آواز آئی۔ صبح کی بجائے رات ہی کو ہم نے ڈاکٹر صاحب کے گاؤں ڈاگ اسماعیل خیل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ راستے میں خوب بارش ہوئی۔ تقریباً رات ایک بجے زبیر توروالی کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت کہاں ہیں؟ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ وہ ملاکنڈ ٹاپ پر حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ہم اُن کے گاؤں جارہے ہیں۔اس وقت ہم راستے میں چکدرہ سے گزر رہے ہیں۔
جب ہم ڈاگ اسماعیل خیل پہنچے، تو فجر کی نماز پڑھی جاچکی تھی۔ بازار کے ایک چاق و چوبند چوکیدار سے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر کا پتا پوچھا، وہاں ہم نے رونے کی آوازیں سنیں۔ چوکیدار اور محلے کے لوگوں نے ہمیں حجرہ پہنچا دیا۔ اسی اثنا میں فکر مندی کے باعث شوکت شرار کی کال موصول ہوئی اور ہم نے انھیں بھی یہ سناونی سنائی۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کے بیٹے (جو اُن کے ساتھ سوات آئے ہوئے تھے) سے اس حال میں ملاقات ہوئی کہ وہ بھی رو رہے تھے اور ہماری بھی آنکھیں نم تھیں۔ دم ساز خٹک اور بخت ناک خٹک روتے روتے ہم سے بغل گیر ہوکر کہہ رہے تھے کہ راستے میں ہم آپ کی کتاب ’’دَ انتظار آخری لمحہ‘‘ پر بات کررہے تھے۔ دراصل مذکورہ کتاب میں نے اُنہیں سوات میں تحفتاً دی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اُن کی زندگی میں اُنہیں تحفہ دینے والا میں آخری انسان ہوں گا۔
ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کی آخری رات سوات میں ہمارے ساتھ گزاری تھی اور آخری دن بھی ہم نے اکٹھے گزارا تھا۔ اللہ اُنہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین!
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔