"tehreemtariq.wordpress.com” کی ایک تحقیق کے مطابق فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946ء کو میرٹھ (ہندوستان) کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔تقسیم کے بعد اُن کا خاندان حیدر آباد سندھ میں قیام پذیر ہوا۔ فہمیدہ نے بچپن میں سندھی زبان سیکھی اور سندھی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔
آپ زمانۂ طالب علمی سے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں۔ 1967ء میں شادی کے بعد انگلستان چلی گئیں، وہاں بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ رہیں۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے ایک پبلشنگ ہاؤس کھولا۔ ایک رسالہ ’’آواز‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں ان پر 14 مقدمات قائم ہوئے۔ ضیاء الحق صاحب نے ان کو جبری جلاوطن کر دیا، تو بھارت چلی گئیں۔ دہلی میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ وابستہ رہیں۔
آپ کی پہلی نظم 15 سال کی عمر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے رسالے ’’فنون‘‘ میں شائع ہوئی۔ 22 سال کی عمر میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔ آپ کی شاعری کو غیر شائستہ قرار دیا جاتا رہا، کیوں کہ آپ نے جنس، تخلیق اور بہت سے ایسے موضوعات پر لکھا ہے۔ آپ نے سندھی شاعر شیخ ایاز کے کلام کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’مثنوی مولانائے روم‘‘ کا بھی ترجمہ کیا ہے ۔
آپ کی شعری تصانیف کی تعداد 5 ہے، ذیل میں آپ کی تصانیف کے نام درج ہیں:
بدن دریدہ،اپنا جرم ثابت ہے، پتھر کی زبان، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے اور ہم رکاب۔
اس کے علاوہ آپ کی کلیات ’’میں مٹی کی مورت ہوں‘‘ کے نام سے چھپی ہے۔