مارخور کے دیس میں

گلگت بلتستان مارخور کا دیس ہے۔ یہ ہمارا قومی جانور ہے۔ یہ ایک بڑی نسل کی جنگلی بکری ہے۔ اسے "شخاوت” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ 2015ء کے آغاز تک ان جانوروں کے گروہ میں شامل تھا جو نسل معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، لیکن پچھلے دس سالوں میں ان کی تعداد میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مارخور فارسی زبان کا لفظ ہے "مار” کے لفظی معنی "سانپ” اور "خور”، "کھانے والا” کے ہیں۔ علاقائی کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر کھا جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جگالی کے دوران میں اس کے منھ سے فوم کی طرح کا مادہ باہر آتا ہے جو زمین پر گر کر خشک ہوجاتا ہے۔ اس فوم نما مادے کو مقامی لوگ تلاش کر لیتے ہیں اور سنبھال کر رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ یہ مادہ سانپ کے کاٹنے سے بن جانے والے زخموں سے زہر چوسنے میں معاون ہوتا ہے۔ ان کے ڈرل مشین کے ڈرل کی طرح بل کھاتے ہوئے سینگ ہوتے ہیں، جو سر میں بالکل قریب ہوتے ہیں اور اوپر کی طرف پھیلتے جاتے ہیں۔ ان کے شکاریوں میں انسان کا پہلا نمبر ہے۔ یہ سیدھی چٹانوں اور پہنچ سے دور اونچی پہاڑیوں پر پایا جاتا ہے۔ اس لئے ان کا شکار خاصا مشکل ہے لیکن انسان نما درندے کے لیے ناممکن نہیں۔ اس کے علاوہ یہ برفانی چیتے، بھیڑیوں اور کالے ریچھوں کا بھی شکار بنتے رہتے ہیں۔ اسے ان کی نایاب سینگوں کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہے۔

مار خور انسان کے علاوہ یہ برفانی چیتے، بھیڑیوں اور کالے ریچھوں کا بھی شکار بنتا ہے۔

خوبصورتی بھی بعض دفعہ بدترین دشمن بن جاتی ہے، یہی معاملہ ہمارے اس قومی جانور کے ساتھ بھی ہے۔ اس کا شکار پاکستان میں غیر قانونی ہے، لیکن حکومتِ پاکستان نے انتہائی مہنگے مارخور شکار لائسنس کا اجرا کیا ہے جس کے ذریعے صرف بوڑھے مارخور کا شکار کرنے کی اجازت ہے۔ کیوں کہ بوڑھے مارخور بریڈنگ کے عمل کے لئے ناموزوں ہوتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ چوٹیوں کے برف پوش حصوں میں روپوش رہتے ہیں۔ البتہ سردیوں میں یہ سلک روڈ پر نظر آجاتے ہیں۔ یہ ٹولے اور جھنڈ میں گزر بسر کرتے ہیں۔
ہنزہ سے پاک چائینہ بارڈر کی طرف ہم "مارخور” اور "یاکس” کے دیدار کی حسرت لیے روانہ ہوئے، تو پہلا سامنا عطاآباد جھیل سے ہوا۔ اس جھیل میں دیسی ساخت کی کشتیاں چلتی ہیں۔ یہاں بھی خدا کا سہارا اور آیت الکرسی آپ کے دل کو اتنی مضبوطی دیتے ہیں کہ پیٹر انجنوں کے سہارے چلنے والی دیسی ساخت کی کشتیوں پر آپ تین ہزار فٹ گہری جھیل پار کرنے کی ٹھان لیں۔ بعض دفعہ "بیوٹی” اور "اٹریکشن” خوف پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ اسی اٹریکشن نے کشتی میں سواری کے لیے ہماری ڈھارس بندھائی جھیل کا سفر، پانی، اردگرد اونچے پہاڑ، دور کنارے پر ہلکا سا جنگل۔ ان نظاروں کے دوران میں جھیل میں پھیلائی ہوئی انسان نماجانوروں کی آلودگی مزے کو تھوڑا بہت کِرکِرا تو کرتی ہے، لیکن خوبصورتی پھر سے اپنے سحر میں جکڑ کر اپنے شکنجے میں کس لیتی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا کشتی کا سفر ایک خواب کی طرح پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔ آگے پھر سے سلک روڈ خنجراب تک لے جانے "یاکس” کے دیس کی یاترا میں مدد دینے کے لیے آن موجود ہوتی ہے۔

نیلگوں پانی سے بھرے پرے عطا آباد جھیل کا سحر انگیز نظارہ۔

 سلک روڈ پر ہمارا سفر "سوست” تک جاری رہا۔ سوست پہنچ کر چائینہ بارڈر اور "یاکس” کو دیکھنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ کیونکہ سڑک کے ساتھ رواں دواں دریائے ہنزہ نے سوست سے آگے دو کلومیٹر سڑک کو اپنے پیٹ میں سمو لیا تھا۔ سوست میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ تازہ خوبانیوں سے بھوجن کیا اور برفانی چیتے کو دیکھ کر واپسی کی راہ لی۔ مارخور کی تلاش میں ہر پہاڑی کی چوٹی پر نظر دوڑائی مگر مارخور ندارد۔ واپسی پر "بورتھ لیک” کی سیر کی۔ یہ لیک چھوٹی ہے مگر خوبصورتی اور رعنائی میں اپنی مثال آپ ہے۔ سیاحوں کی لاعلمی کی وجہ سے یہ جھیل کافی حد تک آلودگی سے پاک ہے۔ یہیں ایک جرمن باشندے سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے "انٹروڈکشن” کا چسکا لینے کے لیے ان صاحب سے خیریت کیا پوچھی، وہ تو شائد موقع کی تلاش میں تھے کہ کب کوئی پوچھے اور وہ اپنے غصے اور دکھوں کی بالٹی اس پر انڈیل دیں۔ یہ صاحب دہشت گردی کی فراوانی، کرپشن اور ہمارے ملک کی لاقانونیت سے بے زار بلکہ شدید نالاں تھے۔ جلتی پر تیل کا کام میں نے یوں کیا کہ پوچھ بیٹھاکہ آپ کے خیال میں اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ انہوں نے کمال سفاکی سے انگلی میری طرف اٹھا کر کہا کہ آپ خو د اس کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے بھی ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی کہ آپ کے اور ہمارے مصائب کی واحد وجہ یہ ہے: "We are in love with America” اس پوائنٹ پر میری توقع کے عین مطابق وہ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ ان صاحب کا غصہ بجا تھا۔ یہ لوگ ان تحفوں کو دیکھنے آتے ہیں جو قدرت نے ہمیں عطا کیے ہیں۔ ہمارے پاس نہ تو ان کے لیے سکون ہے، نہ سہولیات اور نہ حفاظتی اقدامات ہی ہیں۔ یہ ہمیں بدقسمت قرار دے کر ہمارے اوپر برانگیختہ ہونے میں حق بجانب ہیں۔ دنیا میں اَن گنت لوگ ایسے ہیں جو ہمالیہ اور قراقرم رینجز دیکھنے کی خواہش دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ یقین نہ آئے، تو کبھی فیس بک پر جاکر ویوز شیئر کر کے دیکھ لیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہمارے پاس اپنے گھر میں موجود خوبصورتی کو دیکھنے اور "ایکسپلور” کرنے کا وقت نہیں۔

شاہراہِ ریشم، جس پر ہم مارخور کے دیدار کے لیے خوار ہوئے۔

میں قدرت کے ہر شاہکار کو دیکھ کر شاداں و فرحاں تھا۔ زندگی ان علاقوں میں ذرا "ٹف” ہے لیکن ان علاقوں کی خوبصورتی سختیوں کو بھلا دینے میں کافی مدد کرتی ہے۔ یہاں کے لوگ ان سختیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ آنے والے سیاحوں کو برف پوش چوٹیوں کو دیوانہ وار دیکھتے پا کر سوچتے ہیں، جانے کیسے دیوانے لوگ ہیں، ہزاروں میل کا سفر طے کرکے ان ساکت و جامد پہاڑوں کے دیدار کے لیے آتے ہیں۔ ان سادہ لوح لوگوں کے لیے یہ خوبصورتی، یہ چوٹیاں اس لیے معمول کی بات ہیں کہ گھر کی مرغی تو ویسے بھی دال برابر ہوتی ہے۔
واپسی کا سفر بھی حسین یادوں کی ایک بارات تھا۔ ڈھلتے سورج کے سائے عطا آباد جھیل کو انوکھے ہی رنگ عطا کر رہے تھے۔ آدھی جھیل چھاؤں میں پناہ لیے تھی جب کہ آدھی جھیل کو ڈوبتے سورج کی کرنیں چومنے کی کوشش میں مدھم ہوتی جا رہی تھیں۔ میرے تمام ساتھی ساکت و جامد جھیل کے منظر کو اپنے اندر سمو لینے کی کوششوں میں دنیا سے بے گانہ تھے۔ ڈاکٹر پرکمار کو اپنا کیمرہ بھول چکا تھا، وہ ڈاکٹر صاحب جو گاڑی سے اترتے ہی ڈاکٹر نذیر کو سامنے کھڑا کرکے فوٹو بنانے اور بنوانے میں مگن ہو جاتے تھے، سب کچھ بھلائے غروبِ آفتاب کے انوکھے نظارے کے نشہ کا سرور لے رہے تھے۔ یہ خاموشی تب ٹوٹی جب کشتی کنارے جا لگی۔ پیٹر انجن بند ہوئے میں نے الوداعی نظر جھیل پر ڈالی۔ سورج کی ڈوبتی کرنیں جھیل کے پانی کو چوم رہی تھیں۔ بلند پہاڑ یہ انوکھا رومانس دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ شائد بہشت کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ جھیل کا سبزی مائل پانی ہر لحظہ رنگ بدل رہا تھا۔ ڈوبتی کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی برف پر یوں پڑ رہی تھیں کہ جیسے سونے کا تاج پہنا رہی ہوں۔ قدرت کی صناعی کمال ہے۔ یہ سب مناظر مجھے جھنجھوڑ کر بتا رہے تھے کہ یہ دنیا ایک کتاب ہے، موٹی ضخیم اور دلچسپ۔ جو لوگ گھروں میں قید رہتے ہیں، دن رات کاروبار، نوکریوں اور دنیا داری کے چکر میں غرق رہتے ہیں، وہ صرف ابتدائی صفحے کو ہی ادھورا پڑھ پاتے ہیں۔ جو لوگ سفر نہیں کرتے، وہ زندگی کی کتاب کو محض تھامے تو رکھتے ہیں، مگر انجوائے نہیں کر پاتے نہ پڑھ ہی پاتے ہیں۔

ڈوبتی کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی برف پر یوں پڑ رہی تھیں کہ جیسے سونے کا تاج پہنا رہی ہوں۔

اس کتاب کو وہی پڑھ پاتے ہیں جو سفر کرتے ہیں۔ میں تو اس کتاب کے کلائمکس قراقرم پر پہنچا ہوا تھا۔ میری خوش قسمتی مجھے شروع کے بور چیپٹرز سے بچا کر سیدھا اس سبق پر لے آئی تھی۔ اسی سوچ اور خوشی میں مست ہم پھر سے ہنزہ جا پہنچے۔ یہ ہماری سفر کی ہنزہ میں آخری رات تھی۔
قارئین، جو گزر گئی اسے چھوڑئیے، ابھی بھی بہت وقت ہے زندگی کی کتاب کو پڑھنے کے لیے۔ ہزاروں میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔ پہلا قدم لینا ہی ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد تو منزلیں خود بخود قدموں تلے بچھتی چلی جاتی ہیں۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ نے یہ قدم اکیلے لینا ہے، کب لینا ہے اور کہاں سے لینا ہے؟ کوشش کیجیے کہ اپنے گھر کی سیاحت سے آغاز کریں۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔