فوزیہ قصوری ناراض جبکہ مسرت زیب اور نازبلوچ کے بعد اب عائشہ گلالئی نے بھی پی ٹی آئی کی کشتی سے اتر کر راستے الگ کردیئے۔ یکم اگست 2017ء کو جہاں شاہد خاقان عباسی حلف اٹھا کر ملک کے اٹھارہویں وزیراعظم بنے، وہیں مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی رفاقت کے خاتمے کااعلان کرتی سنائی دی۔ عائشہ گلالئی کاپی ٹی آئی چھوڑنا ہماری سیاسی روایات میں کوئی نیاواقعہ ہے نہ ہی پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والی وہ پہلی خاتون ہے۔ اس سے قبل مسرت زیب اور نازبلوچ بھی تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی وابستگی ختم کرا چکی ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کی دیرینہ خاتون رہنما فوزیہ قصوری بھی اندرونی معاملات پر اختلافات کے پیش نظر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر ایک عرصے سے سیاسی منظرسے غائب ہیں اورسیاسی جماعتوں میں ورکرز کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعت کی مثال اس گاڑی جیسی ہوتی ہے جس میں سواریاں چڑھتی اترتی ہیں، مگر وہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتی ہے۔
عائشہ گلالئی سے پہلے پارٹی کے تنظیمی امور کو بنیاد بنا کر دیگر خواتین رہنماؤں نے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑا ہے اور انہوں نے اخلاقیات کے تناظرمیں عمران خان یا پارٹی قیادت میں موجود کسی اور شخصیت کی ذات پرقابل اعتراض الزامات عائد نہیں کئے۔ البتہ عائشہ گلالئی کامعاملہ مختلف ہے۔ کیونکہ انہوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر اقربا پروری اور ان سمیت مرکزی رہنما جہانگیر ترین پرمالی بے ضابطگی کے الزامات ضرورلگائے۔ ساتھ ہی پارٹی کے مرکزی چیئرمین عمران خان کو بدکردارشخص قراردیا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عائشہ گلالئی نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور عمران خان کی ذات پر سنگین الزامات عائد کئے۔ گلالئی کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان بداخلاق اور بدکردار شخص ہے جس سے پارٹی میں ماؤں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں اور اگر بدکردار شخص ملک کا وزیراعظم بنا، تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایسے شخص پر آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ لاگو ہونا چاہئے۔ عمران خان اپنے آپ کو پٹھان کہتاہے، مگر وہ دونمبر پٹھان ہے جو پارٹی میں مغربی کلچرکو فروغ دے رہاہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی حرکتیں کافی عرصے تک برداشت کرتی رہی۔ مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔ وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے جبکہ عمران خان ان کے ہاتھوں بلیک میل ہے۔ کیوں کہ انہوں نے عمران کو پرویز خٹک کی کرپشن کے ثبوت دیئے، تو انہوں نے پھینک دیئے۔ عمران خان نے غیر اخلاقی ٹیکسٹ پیغامات بھجوائے، جس سے دکھ ہوا۔ گلالئی کے مطابق ان کے سامنے عہدوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ ایک روایتی پختون گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور عزت پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ عزت بڑی چیزہوتی ہے اوران کے لئے اپنی عزت سے بڑھ کر کوئی چیزمقدم نہیں۔‘‘
قارئین، عائشہ گلالئی کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی میں بہت ساری خواتین عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی غیر اخلاقی حرکتیں برداشت کر رہی ہیں اور تحریک انصاف بدترین اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ ان کے مطابق ان معاملات پر اختلافات کی وجہ سے وہ ایک عرصے سے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش رہی اور بنی گالہ جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔
عائشہ گلالئی کہتی ہیں کہ کئی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اسمبلی ممبر شپ نہیں چھوڑوں گی۔ کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے جبکہ نون لیگ میں شامل نہیں ہو رہی ہوں۔
تحریک انصاف کی منحرف خاتون ایم این اے عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کے بعد اٹھتے سوالات یہ ہیں کہ اگر عمران خان بداخلاق اور بد کردار شخص ہے جس نے انہیں موبائل پر غیر اخلاقی پیغامات بھجوائے ہیں اور ان کے دعوے کے مطابق پہلا پیغام اکتوبر2013ء میں موصول ہوا، تو عائشہ نے 2017ء تک چار سالوں پر محیط طویل انتظار کیوں کیا اور یہ راز افشاں کرنے کے لئے ایسے وقت کا انتظار کیوں کیا اور اب تک یہ راز دل میں چھپائے کیوں رکھا؟ اگر واقعی عائشہ گلالئی مسلم لیگ نون میں شامل نہیں ہو رہیں، توانہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تعریفوں کے اتنے پل کیوں باندھے؟ جبکہ دوسری جانب سابق مشیروزیراعظم انجینئرامیر مقام کا ان کے ساتھ رابطے کی بھی اطلاعات ہیں۔
عائشہ گلالئی کا پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد یہ کہنا کیا جواز رکھتا ہے کہ وہ اسمبلی ممبرشپ نہیں چھوڑیں گی، کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے۔ عوام کی امانت تو تب ہوتی جب وہ ووٹ لیکر منتخب حیثیت میں اسمبلی آتیں۔ عائشہ گلالئی نے الزامات تو عائد کئے مگر الزامات کے ثبوت میڈیاکو دکھانے سے قاصرکیوں رہیں؟ قطع نظر اس کے کہ عائشہ گلالئی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی عمران خان کی ذات پر لگے الزامات درست ہیں یا یہ انہیں بدنام کرنے کی سازش ہے؟ جس کاپی ٹی آئی دعویٰ کر رہی ہے۔ تاہم اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ تبدیلی کی علمبردارسیاسی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر لگے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور سپریم کورٹ سمیت ملک کے دیگر مقتدر اداروں کواس کا نوٹس لینا چاہئے۔ اگر الزامات درست ثابت ہوتے ہیں، توعمران خان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہئے اور اگر ان پر لگے الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں، تو عائشہ گلالئی کو قانون کے کٹہرے میں کھڑاکرکے انجام تک پہنچایا جائے۔ کیونکہ سیاست میں خواتین کی بے عزتی کسی طور قابل قبول ہے، نہ ہی محض الزامات لگا کر عمران خان جیسے قومی دھارے کے بڑے اور مقبول سیاسی رہنما کو بدنام کرنا درست عمل ہے۔