یہ مشکلات سوات میں ہی کیوں زیادہ ہیں؟

یہ مشکلات سوات میں ہی کیوں زیادہ ہیں؟

اٹھارہ جولائی 2017ء کے روزنامہ آزادی سوات نے ’’سڑکوں کی تعمیر کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا؟‘‘ کے زیر عنوان اداریہ تحریر کیا ہے، جس میں سوات میں پی ٹی آئی کے چار سالہ دور میں صوبے بھر میں ترقیاتی عمل کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی زبوں حالی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس سے پہلی والی حکومت کے دور میں ناقص میٹریل کے استعمال کا بھی ذکر کیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سرکاری کاموں اور خریداریوں میں وسیع اور بڑے پیمانے کی کرپشن کی باتیں کافی مشہور تھیں، حتیٰ کہ صوبائی سیکرٹریٹ اور صوبائی پولیس (چیف پولیس آفس) آفس میں مالی سکینڈلوں کی اطلاعات آئی تھیں، اگر یہ بیانات اور اطلاعات درست ہوں، تو ان میں متعلقہ بعض سرکاری ملازمین، مارکیٹ کے مالدار سپلائرز اور ٹھیکیداروں اور ممکنہ طور پر بعض سیاسی افراد نے حصے وصول کئے ہوں گے۔ حکومت کی تبدیلی پر صرف سیاسی لوگ تبدیل ہوگئے، ممکنہ برے سرکاری ملازمین اور سپلائرز اور ٹھیکہ دار حضرات تو وہی رہے۔ اور جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی، تو اس نے بڑے بے ڈھنگے اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے کرپشن کرنے والوں کے خلاف ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ پہلے خاموشی کے ساتھ برے سرکاری ملازمین کو ایک طرف کرتی۔ دفاتر میں اچھے لوگوں کی کمی کبھی نہیں ہوتی، اُن کی جگہ اچھے ملازمین کو لے آتی۔ پھر حکومت کے ترقیاتی کاموں کی رفتار پر اثر نہ پڑتا۔ معیار بھی اچھا ہوتا اور مقدار بھی زیادہ ہوتا۔ لیکن کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ڈھول پیٹنے سے یوں ہوا کہ انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اگرچہ صوبائی وزارت خزانہ اور وزارت بلدیات مشینری وزرا کے پاس تھی لیکن وہ بھی لکیر کے فقیر ہی ثابت ہوئے اور ایسے طریقے اور اقدامات متعارف نہ کرواسکے جن کے ذریعے وہ ’’سے نو ٹو کرپشن‘‘ والی اپنی مشن کو پورا کرسکتے۔ پھر پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کے ساتھ مشت گریبانی نے مرکزی حکومتی محکموں کو ہمارے صوبے میں منفی کردار کو شہ دے دی۔ سوات میں خصوصی طور پر تصادم والی صورت حال زیادہ ہے۔ چند افراد جن کو پولی ٹیکل سائنس کی زبان میں ’’ایجی ٹیٹرز‘‘ یعنی احتجاج پر یقین رکھنے والے کہتے ہیں، زیادہ متحرک چلے آرہے ہیں۔ بات بات پر احتجاج کرنا، رکاؤٹیں ڈالنا، سرکاری ملازمین کو پریشان کرنا یا اُن کو نقصانات پہنچانے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ملازمین (چھوٹے بڑے دونوں) دل بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کام بھی چھوڑ دیتے ہیں اور نتیجہ وہی ہوتا ہے جو مذکورہ بالا اداریے میں تحریر ہے۔
پوری دنیا میں عوام کے اشتراک سے ترقیاتی کام ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں عوام اپنا حصہ ڈالنا پسند نہیں کرتے۔ پورے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی سڑک کی تعمیر یا بڑی مرمت ہوجاتی ہے، تو متعلقہ حکومت اُس پر ٹول پلازے تعمیر کرکے لمبے عرصے کے لیے چونگی قائم کرتی ہے۔ یوں ان سڑکوں پر اٹھنے والے اخراجات سے کئی گنا زیادہ پیسے عوام جمع کرکے قومی خزانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی طریقہ پلوں کی تعمیر کے بعد بھی کیا جاتا ہے اور عوام ایک قسم کا خود پل تعمیر کردیتے ہیں۔ ہمارے یہاں سوات میں نئے ایوب پل پر چونگی کے قیام پر جو احتجاج اور ادائیگی سے انکار ہوا وہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ کچھ عرصہ قبل مین روڈ کی مرمت اور وسعت کے لیے ٹول پلازوں کی تعمیر اور چونگی کے خلاف جو رکاؤٹیں عملاً ڈالی گئیں وہ حال ہی کی بات ہیں۔ دنیا بھر میں معیاری سڑک کے بنانے کے لیے غیر قانونی عمارات اور تجاوزات کو ہٹایا جاتا ہے۔ سوات میں ہم لوگ پوری شدت کے ساتھ اس ضرورت کے راستے میں رکاؤٹیں ڈالتے ہیں، بلکہ سرکاری ملازمین کو پہلے رام کرنے یا پھر اُن کی کردار کشی کرواکر ضلع بدر کرنے کی عادت ہماری بڑی پرانی ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بھی خود دار سرکاری ملازم دل کی گہرائی کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ وہ یا تو کرپشن میں شامل ہوجاتا ہے (جو اُسے مرتشی لوگ خود فراہم کرتے ہیں) اور یا ایک طرف ہوجاتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ایک اہم ضلعی کرسی پر کام کرنے کا کچھ موقعہ ملا ہے اور میرے تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ یہ ہے کہ سوات میں منتخب نمائندوں، سرکاری ملازمین اور سول سوسائٹی کے آپس میں بیٹھنے اور حالات کا تجزیہ کرنے اور اصلاحات کرنے اور کروانے کی بڑی اور شدید ضرورت ہے۔ اس ڈویژن کے اکثر آفیسرز یہ حقیقت جانتے ہیں کہ عام لوگوں کی حد سے زیادہ دلجوئی بسا اوقات منفی اثرات؍ عادات پیدا کرتی ہیں۔ ان کی بری مثال ہمارا ضلع ہے۔ بھلائی کی طرف بلانے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ یہی لوگ سر چڑھے بن کر پریشانیاں پیدا کرتے ہیں۔
جمہوری نظامِ حکمرانی کا اول ترین تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اُس ملک میں بیوروکریسی مضبوط اور آلودگیوں سے پاک ہو اور وہ منتخب نمائندوں کی ریاستی امور میں رہنمائی اور نگرانی کرتی ہو۔ کیوں کہ منتخب لوگ گلیوں اور بازاروں سے اُٹھ کر آتے ہیں۔ اُن کو حکومت، ریاست کے معاملات اور بیرونی دنیا کے بارے میں اچھی حکمرانی کی مہارت نہیں ہوتی۔ اس لیے اُن کے لیے عمدہ مشیروں اور نگرانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صرف اچھے بیوروکریٹس ہی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں جعلی بیوروکریٹس نوے فی صد اور اصلی بیوروکریٹس دس فی صد کے تناسب میں ہوں گے۔ اب جعلی افسران کی اس کثرت میں منتخب نمائندے کیسے درست مشورے حاصل کرسکتے ہیں؟ اور وہ بھی اُن علاقوں میں جہاں عوام اور اُن کے سرکردہ افراد متوازن لوگ نہ ہوں۔
پورا ملاکنڈ ڈویژن عموماً اور ضلع سوات خصوصاً اس عمدہ حکمرانی کا شدید ضرورت مند ہے کہ یہاں غیر معمولی طریقہ ہائے کار سے کام لیا جائے۔ سڑکوں کی مرمت میں سوات ناکام، سیاحت کے حوالے سے سوات ناکام، تعلیم اور صحت کے معاملات میں سوات ناکام، مارکیٹ اور الحاج کی زبردست طاقت کو قابو میں رکھنے میں سوات ناکام، آخر کیوں؟ ضرور ایسے عوامل یہاں زیادہ موجود ہیں جو یہاں اچھی حکمرانی کو ناکام بناتے ہیں۔ کئی ماہ قبل انتظامیہ نے این سی پی گاڑیوں کو بہتر نمبر پلیٹس دینے کا کام شروع کیا لیکن تاحال مینگورہ میں پانچ فی صد سے کم گاڑیوں کے پاس نئی نمبر پلیٹس ہیں۔ اس سست رفتاری کی وجوہات کیا ہیں؟
اس وقت مینگورہ میں تقریباً تقریباً ساری موٹر سائیکلیں بغیر نمبر پلیٹ کی ہیں۔ یہ این سی پی بھی نہیں ہیں۔ یہاں کیوں انتظامیہ ناکام ہے؟ مارکیٹ سے متعلق معاملات اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ (پبلک ٹرانسپورٹ) کے معاملات میں حکومت کہیں نظر ہی نہیں آتی۔
تجویز ہے کہ ضلعی ؍ ڈویژنی انتظامی افسران، ضلعی حکومت کے ذمہ داران، میونسپل افسران، معاشرے سے مشران اور ماہرین اور قومی و صوبائی اسمبلی ممبران پر مشتمل ایک ایپکس کمیٹی مستقل بنیادوں پر موجود ہو جو عمدہ SWOT ANNALYSIS (سووٹ انالیسز) کے بعد ایسے طریقے وضع کرے کہ ضلع میں سرکاری کاموں کی ناکامیوں کی وجوہات معلوم کرکے اُن کے اِزالے پر کام کرے۔ فی الحال منتخب نمائندوں سے عمدہ کارکردگی کی امید نہیں۔ ان کا استعدادِ کار یعنی ’’ورکنگ کپیسٹی بہت کم ہے۔ اس لیے زیادہ بوجھ سرکاری افسران، ضلعی؍ تحصیل حکمران اور مشران و ماہرین اٹھائیں۔
امید ہے یہ ناکامیاں کم سے کم ہوجائیں گی۔