سوات کی سیاسی ڈائری

سوات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔ اے این پی نے سب سے پہلے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے اے این پی کے امیدواروں نے دو ماہ قبل ہی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا تھا، جو اب بھی جاری ہے۔ اے این پی کے برعکس باقی جماعتوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے آغاز تک اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ جمعہ کو تحریک انصاف کی جانب سے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف ضلع سوات میں اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سوات کے حلقہ این اے 2 کے لئے امیدوار کا اعلان ابتدائی لسٹ میں نہیں کیا گیا۔ این اے 3 سے سابق ایم این اے (این اے 30، موجودہ این اے 2) سلیم الرحمان، این اے 4 سے سابق ایم این اے (این اے 29 موجودہ این اے 3) مراد سعید، پی کے 2 سے ن لیگ میں شامل ہونے والے میاں شرافت علی، پی کے 4 سے سابق ایم پی اے عزیز اللہ گران، پی کے 5 سے سابق ایم پی اے فضل حکیم، پی کے 6 اور 7 سے ڈاکٹر امجد علی، پی کے 8 سے (سابق معاونِ خصوصی) محب اللہ اور پی کے 8 سے سابق صوبائی وزیر محمود خان کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔تحریک انصاف کے زیادہ تر کارکن بیشتر سابق اراکین اور ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس لئے پارٹی کے بنیادی کارکنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف انتخابی مہم چلائیں گے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق ایم این اے مراد سعید جو 2013ء کے انتخابات کے بعد سے اسلام آباد میں مقیم رہے اور اپنے ضلع سوات میں بہت کم دکھائی دیئے جس کی وجہ سے عام لوگ اور پی ٹی آئی کے کارکن اس دفعہ مراد سعید کو ووٹ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ خاص کر ریحام خان کی کتاب میں مراد سعید کے مبینہ ذکر جو سوشل میڈیا پر عام ہوا، کے بعد سے مراد سعید کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہوگئے ہیں۔ سابق معاونِ خصوصی ڈاکٹر امجد علی کو دو حلقوں سے ٹکٹ ملنے کے بعد پی کے 7 سے پی ٹی آئی کے بانی کارکن اور ضلعی عہدیدار سعید خان ڈھیرئی سخت ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کو یقین تھا کہ پی کے سات کا ٹکٹ ان کو دیا جائے گا، جس کے لئے انہوں نے گذشتہ چند ماہ سے سرگرمیوں اور شمولیتوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری اانجینئر عمر فاروق کو این اے 3 کا ٹکٹ دینے کی امید دے کر پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تھا، لیکن ان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اس طرح این اے 3 اور پی کے 6 سے پارٹی کے صوبائی رہنما عدالت خان اور پی کے 6 سے ڈاکٹر ضیاء اللہ خان کو بھی ٹکٹ نہ دے کر کارکنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔

ریحام خان کی کتاب میں مراد سعید کے مبینہ ذکر کے بعد سے ان کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ (Photo:Samaa TV)

مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی بیشتر حلقوں پر امیداوروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ این اے 2 سے امیر مقام، این اے 3 سے عبدالرحیم متوقع امیدوار ہیں۔ پی کے 2 سے امیر مقام، پی کے 3 سے سردار خان، پی کے 4 سے امیر مقام، پی کے 5 سے ارشاد خان، پی کے 6 سے حبیب علی شاہ، پی کے 8 سے عظمت علی خان اور پی کے 9 کا ٹکٹ عبداللہ خان کو دیا گیا ہے، تاہم این اے 4 اور پی کے 7 کے ٹکٹوں کا اعلان تا حال نہیں کیا گیا۔ سوات میں ن لیگ کے مرکزی صدر شہباز شریف کی جانب سے سوشل میڈیا پر اور اخبارات میں سوات کے قومی حلقہ سے انتخابات میں حصہ لینے کی خبریں گرم تھیں، تاہم ن لیگ کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سوات سے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔

متحدہ مجلس عمل سوات بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات کا شکار ہے۔ اس وقت ایم ایم اے میں شامل جے یو آئی نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق این اے 2 سے مولانا سید قمر، این اے 3 سے اسحاق زاہد، این اے 4 سے سابق صوبائی وزیر قاری محمود، پی کے 3 سے علی شاہ خان ایڈووکیٹ، پی کے 4 سے ثناء اللہ، پی کے 6 سے شاہی نواب اور پی کے 9 سے ڈاکٹر امجد علی امیدوار ہوں گے، تاہم آخری اطلاعات تک جے یو آئی کے پارلیمانی بورڈ نے این اے 3 کا ٹکٹ سابق امیدوار صوبائی اسمبلی مولانا حجت اللہ کو دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی کے امیدواروں میں سے این اے 2 کے لئے سابق ایس پی نوید خان، این اے 3 کے لئے سابق ایم پی اے محمد امین، پی کے 2 کے لئے بخت امین کریمی، پی کے 5 کے لئے محمد امین، پی کے سات کے لئے سابق صوبائی وزیر حسین احمد کانجو اور پی کے 8 کے لئے سابق ایم این اے ڈاکٹر فضل سبحان نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایم ایم اے سوات میں شامل دو بڑی جماعتیں جے یو آئی اور جماعت اسلامی ٹکٹوں پر اختلافات کا شکار ہیں۔ تاہم امکان ہے کہ ایم ایم اے کے ٹکٹوں کا فیصلہ صوبائی کابینہ کرے گی۔

ایم ایم اے کے ٹکٹوں کا فیصلہ صوبائی کابینہ کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ضلع سوات نے سابق بلدیاتی انتخابات میں پورے ضلع سے صرف ایک یونین کونسل سے کامیابی حاصل کی تھی اور اس یونین کونسل کے لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی کے شہید رہنما فضل حیات چٹان کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا، جس کے علاوہ ضلع بھر میں پیپلز پارٹی ضلع و تحصیل کی کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ سوات کے شاہی خاندان کے شہزادہ میاں گل شہر یار امیر زیب کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور ٹکٹ ملنے کے بعد وہ این اے 3 سے انتخابی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوگئے تھے، لیکن انہوں نے ’’م زَر ما، ٹولہ زما‘‘ والا کام کرکے اپنے بیٹے شہزادہ امیر زیب کے لئے بھی پیپلز پارٹی سے صوبائی حلقے کا ٹکٹ حاصل کیا، جس کے بعد ان کی قومی اسمبلی کے حلقہ میں بھی اب وہ پوزیشن نہیں رہی۔پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں نے غیر متعلقہ افراد کو ٹکٹ دینے کے خلاف ہفتہ کو مینگورہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور صوبائی قیادت کے خلاف نعرہ بازی کی۔ انتخابات میں تقریباً ایک ماہ کا وقت رہ گیا ہے۔ سوات میں عید الفطر کے بعد سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ جائیں گی۔ اس وقت تو تمام سیاسی جماعتیں اور امیدوار کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔ تاہم اپنی سابقہ روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوات کے عوام 25جولائی کو اپنا کیا سیاسی فیصلہ کریں گے؟ یہ 25 کی رات کو واضح ہو جائے گا۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔