گذشتہ روز بعد از افطار میری رضا شاہ سیٹھی صاحب کے ساتھ ان کے بڑے بھائی ممتاز صحافی سلیم سیٹھی (مرحوم) کی زندگی پر اک نشست مقرر تھی۔ وقتِ مقررہ پر اپنے بلڈنگ ڈیزائنر دوست کشور علی کی معیت میں رضا شاہ سیٹھی صاحب کے گھر پہنچا، تو ان کے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست چلی۔ جس میں مجھے سلیم سیٹھی (مرحوم) کو جاننے کا موقع ملا۔ بات سے بات نکلی اور تان آکر رضا شاہ سیٹھی اور سلیم سیٹھی (مرحوم) کے والدِ بزرگوار ’’حاجی واحد زمان سیٹھی‘‘ پر آکر ٹوٹی۔ میں چہ کنم میں پڑ گیا اور کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج کی نشست سلیم سیٹھی (مرحوم) کے والد بزرگوار ’’حاجی واحد زمان سیٹھی‘‘ (مرحوم) کے نام وقف کرتے ہیں اور آپ کی شخصیت پر بحث کو کسی اور نشست پر موقوف رکھتے ہیں۔
حاجی واحد زمان سیٹھی (مرحوم) کے سب سے چھوٹے بیٹے رضا شاہ سیٹھی نے اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہا کہ: ’’مینگورہ میں گنتی کے چند کاروبار تھے اور ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے چند کاروباری حضرات۔ ان میں ایک ہمارے بابا حاجی واحد زمان سیٹھی (مرحوم) بھی تھے۔ ریاستی دور میں وہ کریانہ مرچنٹ تھے۔ ریاستی دور کے خاتمہ کے بعد انہیں چینی کا سنڈیکیٹ (Syndicate) ملا۔ باالفاظِ دیگر پورے سوات کو چینی کی سپلائی کی ذمہ داری بابا کی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ریاستِ سوات ابھی ابھی ضلع کی حیثیت سے ریاستِ پاکستان میں مدغم ہوئی تھی۔ شانگلہ اور بونیر ابھی تک سوات کا حصہ تھے۔ چینی، پولینڈ سے بحری جہازوں کے ذریعے درآمد ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ ہمارا یہ کاروبار اتنا بڑھا کہ کراچی کی بندرگاہ پر کھڑے کھڑے کئی جہاز بِک جاتے اور چینی کا جتنا کوٹا سوات کے لیے درکار ہوتا، وہ مختلف چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ذریعے روانہ کر دیا جاتا۔ پھر جیسے ہی 70 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی، تو سیٹھی صاحب کو مذکورہ سنڈیکیٹ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے بعد سیٹھی صاحب نے ’’سنگر‘‘ (مشہور الیکٹرانکس کمپنی) کی سوات کے لیے ایک ایجنسی لے لی۔ ٹھیک سنہ 1990ء تک سیٹھی صاحب کی ایجنسی سے اہلِ سوات کو سنگر کے مختلف برقی آلات رعایتاً ملتے رہے۔‘‘
باتوں باتوں میں رضا شاہ سیٹھی صاحب نے بتایا کہ ریاستی دور کے بعد ’’سنگر‘‘ نے سیدو شریف میں ایک چھوٹی سی دکان میں وہاں کے کسی مقامی شخص کو ’’ڈیلر شپ‘‘ دی تھی، دورانِ گفتگو اس شخصِ مخصوص کا نام رضا صاحب کو یاد نہیں پڑ رہا تھا۔ رضا صاحب کے بقول: ’’اس بے چارے سے لوگوں نے قسطوں کے عوض مختلف برقی آلات لے لیے اور پھر واپس دکان کا رُخ نہیں کیا۔مجبوراً سنگر کی انتظامیہ کو ’’ڈیلر شپ‘‘ ختم کرنا پڑی۔ اس کے بعد جب ایجنسی بابا کو ملی، تو ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ کے مصداق سنگر انتظامیہ نے کسٹمرز کو قسطوں پر آلات بیچنے کی اجازت نہیں دی۔ تقریباً سنہ 1973ء سے لے کر 1990ء تک ہماراخاندان اسی کاروبار سے وابستہ رہا۔ 1990ء کو بابا انتقال کرگئے اور یوں ہمارا ’’سنگر‘‘ کے ساتھ کاروبار کا خاتمہ ہوا۔‘‘
حاجی واحد زمان سیٹھی کے بارے میں شائد کم لوگ جانتے ہوں کہ وہ لکھت پڑھت نہیں جانتے تھے، مگر بلا کے سوشل تھے۔ ریاستی دور کے چند گنے چنے معزز کاروباری افراد میں شمار ہوتے تھے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرحوم اسماعیل حاجی صاحب، مرحوم شیر زادہ خان، مرحوم محمود خان، مرحوم اسحاق حاجی صاحب اور مرحوم حاجی واحد زمان سیٹھی صاحب ایک ہی گروپ میں شمار ہوتے تھے۔
رضا شاہ سیٹھی کے بقول: ’’کبھی پورا مینگورہ شہر صرف ’’مین بازار کتیڑہ‘‘ پر مشتمل ہوا کرتا تھا، اب تو شہر کافی پھیل چکا ہے۔ مین بازار کتیڑہ میں اسماعیل حاجی صاحب، اسحاق حاجی صاحب، اطہر شاہ اور عالمگیر طوطا کے والد بزرگوار، ڈاکٹر بلال کے والد بزرگوار اور چچا، منانِ بدادا اور میرے مرحوم و مغفور والد بزرگوار کا کاروبار تھا۔ ان کے علاوہ بھی کوئی دس پندرہ اور معززین تھے، جو یہاں کاروبار جمائے ہوئے تھے۔ یہ چھوٹی سی جگہ مینگورہ کہلاتی تھی۔ میری تقریباً 53 سال عمر ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مینگورہ کے باسی سب کے سب ایک دوسرے کو نام سے جانتے پہچانتے اور بلاتے تھے۔ کوئی کسی کے لیے اجنبی یا ناآشنا نہیں تھا۔ والئی سوات جب بھی بازار کا معائنہ کرتے، تو وہ اکثر گرین چوک میں ہمارے حجرے کے ساتھ ہی سواری کھڑی کرتے اور ہمارے والد مرحوم کو ’’کوگو‘‘ کہہ کر بلاتے۔مذکورہ نام سے والئی صاحب انہیں اس لیے یاد کرتے تھے کہ ہمارے والد مرحوم ’’منجہ‘‘ (تحصیل کبل) سے کاروبار کی غرض سے مینگورہ شفٹ ہوئے تھے۔‘‘
1908 ء میں تحصیل کبل کے علاقہ ’’منجہ‘‘ میں آنکھ کھولنے والے حاجی واحد زمان سیٹھی بڑی جہاں دیدہ قسم کی شخصیت تھے۔ 14 برس کی عمر میں انہوں نے احمد آباد (ہندوستان) کے لیے رختِ سفر باندھا۔ وہاں کافی عرصہ رہے اور عزت سے رہے۔ اس دور میں احمد آباد میں پختونوں کا سکہ چلتا تھا۔ رضا شاہ سیٹھی کے مطابق: ’’اُس دور میں ہندو اور سکھ سیٹھوں کو اپنے کاروبار اور جان و مال کی حفاظت کے لیے باقاعدہ طور پر بھتا دینا پڑتا تھا۔ بابا جیسے ہی احمد آباد پہنچے۔ ان کی رگوں میں پختون خون تھا، نوجوان تھے۔ محض تین چار سالوں میں نوجوانوں کا ایک اچھا خاصا گروپ تیار کر بیٹھے، جو تیس چالیس افراد پر مشتمل تھا۔ وہاں احمد آباد کی سیٹھ برادری سے بات ہوئی اور بابا کی سربراہی میں مذکورہ سیٹھ برادری کے جان و مال کی رکھوالی کے عوض انہیں اچھی خاصی رقم ملنے لگی۔ سودا برا نہیں تھا۔ سیٹھ برادری دن کے وقت بے فکر ہوکر اپنا کاروبار کرتے اور رات کو لمبی تان کر سوجاتے۔ پھر 1942یا 43 عیسوی میں بابا واپس ریاستِ سوات آئے اور اپنا کاروبار شروع کیا۔ دو سال تک کافی دوڑ دھوپ کی، مگر ناکام رہے اور مجبوراً احمد آباد واپس لوٹ گئے۔ وہاں دو سال گزارنے کے بعد 1946ء کے اواخر میں مستقل طور پر واپس مینگورہ شہر کا رُخ کیا۔‘‘
کم لوگ جانتے ہوں گے کہ واحد زمان سیٹھی (مرحوم) ریاستی دور میں جنگلات کے کاروبار سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ان کی مختلف دستاویزات اور مہر(جو لوہے کے بنے تھے) ان کے صاحبزادے رضا شاہ سیٹھی کے ساتھ اب بھی محفوظ پڑے ہیں۔ مذکورہ لوہے سے بنے مہر مختلف درختوں پر لگائے جاتے تھے۔ ’’یہ کہا جاسکتا ہے کہ بابا نے ریاستِ سوات واپس آنے کے بعد سب سے پہلا کاروبار جو شروع کیا تھا، وہ جنگلات سے متعلق تھا۔ جنگلات کے کاروبار سے بھی دو تین شخصیات ہی وابستہ تھیں، جن میں ہمارے والد مرحوم تھے، اسماعیل حاجی صاحب ، اطہر شاہ اور عالمگیر طوطا کا خاندان تھا۔‘‘
مرحوم حاجی صاحب نوجوانی اور جوانی کے عالم میں چھریرے بدن کے حامل شخص تھے۔ کافی سرگرم رہتے تھے۔ پورے کاروبار پر نظر رکھتے تھے۔ ڈرائیونگ خود کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیدل بھی گھوما کرتے تھے۔ مین بازار میں ان کا کاروبار تھا۔صبح 8بجے دکان پر تشریف لے جاتے۔ منشی حضرات اور نوکر چاکر انہیں دیکھتے ہی اپنے اپنے کام میں منہمک ہوجاتے۔ دوپہر 12بجے چھٹی کرلیتے اور واپس گھر آجاتے۔ روٹی تناول فرماتے، تھوڑا آرام کرلیتے۔ شام 4 بجے ایک بار پھر تشریف لے جاتے۔ کام کا جائزہ لیتے اور شام کے سائے گہرے ہونے سے پہلے واپس گھر لوٹتے۔
رضا شاہ سیٹھی کہتے ہیں: ’’سنہ 1980ء کو میں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور والد مرحوم سے کہا کہ میں کاروبار میں آپ کا ہاتھ بٹانا چاہتا ہوں۔ والد مرحوم کی خواہش تھی کہ میں پڑھوں، مگر میں دھن کا پکا تھا، کاروبار کی طرف آیا۔ 1980ء تا 1990ء ٹھیک دس سال کا عرصہ میں نے والد مرحوم کے قریب رہتے ہوئے گزارا۔ اس دور میں مجھے انہیں ہر زاویہ سے پرکھنے کا موقع ملا۔ ان کی اٹھک بیٹھک، عادات و اطوار، پسند و ناپسند الغرض ایک طرح سے وہ لہو کی مانند میری رگوں میں دوڑنے لگے۔ یہ وہی دور تھا جب میرے دونوں بڑے بھائی سلیم سیٹھی (مرحوم) اور شوکت سیٹھی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ فاصلہ ہونے کی بنا پر دونوں ہی والد مرحوم کے سامنے جانے سے کتراتے تھے۔
1988ء کو حاجی صاحب پر اچانک فالج کا حملہ ہوا۔ رضا شاہ سیٹھی کے بقول: ’’چند مہینے پہلے انہیں بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) کی شکایت ہوئی۔ دورانِ علالت انہوں نے کبھی پرہیز نہیں کیا، جو چیز پسند آتی، کھا لیتے۔من پسند مشروبات غٹا غٹ پی جاتے۔ ناشتہ میں پراٹھا تناول فرماتے، انڈوں کو خوراک کا حصہ بناتے، کوئی مرغن چیز سامنے آتی، تو پورا پورا انصاف فرماتے۔ ساتھ ساتھ بہت جلد غالباً ڈیڑھ دو مہینے کے اندر اندر اپنے مفلوج وجود کو دوبارہ فعال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ بدقسمتی سے تین چار مہینے فعال زندگی گزارنے کے بعد ان پر ایک بار پھر فالج کا حملہ ہوا۔ چوں کہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے، اس لیے اب کی بار بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھے۔ حتی الوسع معمولاتِ زندگی فعال کرنے کی کوشش کرتے۔ جب تھوڑا بہت اِفاقہ ہوا اور اُٹھنے بیٹھنے کے لائق ہوئے، تو بدقسمتی سے فالج کے تیسرے حملے کا شکار ہوئے۔ اس بار حملہ اتنا شدید تھا کہ ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ بالآخر سال ڈیڑھ سال بستر پر پڑے رہنے کے بعد سنہ 1990ء کو داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے۔‘‘
نامور صحافی سلیم سیٹھی (مرحوم) حاجی صاحب کے بڑے، شوکت سیٹھی منجھلے اور رضا شاہ سیٹھی چھوٹے بیٹے ہیں۔ شوکت سیٹھی زندگی کے روز و شب امریکہ میں گزار رہے ہیں جبکہ رضا شاہ سیٹھی مینگورہ شہر میں اپنے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔