ماحول کا بچاؤ اِک چیلنج

موجودہ ماحولیاتی حالات کے پیشِ نظر کوئی انسان اگر یہ سوچے کہ روئے زمین پر کبھی ایسا ماحول بھی تھا کہ یہاں پر انسان فطرت سے بھر پور مزے لے کر زندگی بسر کرتا تھا، تو اس کا جواب یقینا ہاں میں ہوگا۔ کیوں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کرۂ ارض پر انسانی آبادی کم تھی۔ اس نسبت تعمیرات بھی کم تھیں۔ چناں چہ ہر طرف کشادہ قطعاتِ زمین، بکثرت جنگلات، میلوں پھیلے ہوئے زرعی قطعات، صاف ستھری ندیاں، ذخار سمندر، صاف پانی کے دریا، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے، جڑی بوٹیاں اور پھول اور جنگلی حیات کی بہتات تھی۔ پھر جب انسانی آبادی میں اضافہ ہونے لگا، تو فطرت کی یہ فیاضیاں آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگیں، نتیجے میں آج کے انسان کو گھمبیر ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے خیال میں ماحول کے اس عدم توازن کا ذمہ دار انسان خود ہے۔
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ انسان نے ضرورتِ وقت کے مطابق نت نئی مشینیں ایجاد کیں جس کے ذریعے دھڑا دھڑ مصنوعات تیار ہورہی ہیں۔ ان صنعتوں کو چلانے کے لیے کوئلہ اور معدنی تیل استعمال ہوتا ہے جن کا دھواں ہوا میں تحلیل ہوکر فضا کو زہریلا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کارخانوں سے کیمیائی اور زہریلا مواد باہر نکل کر ندیوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر صاف پانی کو مضرِ صحت اور آلودہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کرۂ ارض کے ماحول کو کس طرح بگاڑ سے بچا کر اسے متوازن بنائیں؟
ساری دنیا میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز تحفظِ ماحولیات کے ماہرین، سرکاری ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں، روزنامے اور محکمۂ جنگلات ماحول کو بچانے کی تدابیر پیش کرتے ہیں اور عوام کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ ماحول کے تحفظ کو اپنا فرضِ اولین سمجھ کر اسے آلودگی سے بچائیں جن میں شجر کاری، جنگلات کے تحفظ اور جنگلی حیات کی بقا پر خصوصی طور پر زور دیا جاتا ہے۔ عوام سے کہا جاتا ہے کہ ’’برتھ کنٹرول‘‘ پر عمل کریں اور ماحول کو آلودہ اور زہریلا بنانے والے فضلات اور مادوں کو مناسب طریقے سے تلف کریں۔

ماحول کو آلودہ کرنے کا بڑا عنصر ’’پولی تھیں بیگز‘‘ ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کی کمی اور ماحولیاتی شعور سے لاعلمی نے ہمارا ماحول بری طرح آلودہ کر رکھا ہے۔ یہاں دھڑا دھڑ جنگلات کاٹے جارہے ہیں۔ جڑی بوٹیوں اور درختوں کی بیخ کنی کی جا رہی ہے اور زرعی اراضی پر تعمیرات کی بھر مار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ماحول آلودہ اور زہریلا ہو رہا ہے اور لکڑیوں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ جنگلات کے خاتمے سے جنگلی حیات جو قدرت نے خاص مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے، اس کی نسلیں انسان کے ہاتھوں معدوم ہورہی ہیں۔ ماحول کو آلودہ کرنے کا بڑا عنصر ’’پولی تھیں بیگز‘‘ ہیں۔ ان کا استعمال اتنا زیادہ ہے کہ نکاس کی نالیاں، پانی کی ندیاں، جوہڑ، تالاب، گھڑے اور گلی کوچے اس سے اٹا اٹ بھرے پڑے ہوتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے، تو یہ پانی کے بہاؤ کو روکتے ہیں۔ نتیجے میں گلی کوچے، سڑکیں اور شہر کے بازار گندے پانی کی ندیاں بن کر تباہی پھیلاتے ہیں۔
وطنِ عزیز میں احساسِ زیاں سے لاپروا باشندے اور سرکاری محکمے ماحولیات کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں مسلسل جنگلات اور درختوں کا خاتمہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار شہروں اور آبادیوں کے درمیان کارخانے بناتے ہیں جن کے خطرناک مواد پانی میں شامل ہوکر پانی کو زہریلا بناتے ہیں اور دھوئیں کے بادل فضا میں اُڑ کر اسے مسموم بناتے ہیں۔ ڈیزل کی چھوٹی، بڑی گاڑیاں سائلنسر ہٹاکر ماحولیاتی اور صوتی آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ وطنِ عزیز میں شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تقریباً پچاس فیصد ادارے اور عوام بجلی کے جنریٹرز چلاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر ڈیزل سے چلتے ہیں جن کا شور اور دھواں ماحول کو خطرناک حد تک آلودہ کررہا ہے۔ الغرض، ماحول کا توازن اور بچاؤ ہمارے لیے ایک قومی چیلنج بنتا جارہا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں قومی شعور پیدا ہوکہ ماحول کا توازن ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر اس طرف سے اغماض برتا گیا، تو پھر یقینا تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ہے۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔