خلائی مخلوق اور نان سٹیٹ ایکٹرز

پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے بعد میاں محمد نواز شریف ریاستی اداروں خاص کر عدلیہ، افواجِ پاکستان، اسٹبلشمنٹ اور نیب کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آئے ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جگہ جگہ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ رونا روتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اس کے بعد ہر جلسے میں ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے میاں محمد نواز شریف نے فرمایا کہ ’’میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے اور قوم کو میرے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے۔‘‘
میاں محمد نوازشریف کے اس بیان پر سیاسی میدان خوب گرم ہوا۔ کوئی اس موقع پر پوچھ رہا تھا کہ خلائی مخلوق سے نواز شریف کی کیا مراد ہے؟ بعض کہہ رہے تھے کہ اگر نواز شریف کی اس سے مراد افواجِ پاکستان ہے، تونواز شریف کی اپنی سیاسی زندگی فوج ہی کی مرہونِ منت ہے۔ پنجاب کی وزارتِ خزانہ، وزیر اعلیٰ کا عہدہ اور پاکستان کی وزیر عظمیٰ کا عہدہ فوج ہی کی بدولت انہیں نصیب ہوا۔ نواز شریف خود خلائی مخلوق کی پیداوار اور ان کے آلۂ کار رہے ہیں۔ آپ نے سابق وزیر اعظم محمد خان جونجو کے خلاف آمر ضیاء الحق کا ساتھ دیا، بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی میں شامل رہے (اصغر خان کیس کے فیصلے نے نواز شریف کے ساتھ دوسرے سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا ہے)، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف رہے اور میمو گیٹ سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچے، لیکن اب اپنے خلاف ہونے والے کوئی بھی فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے انہیں وہ ثبوت پیش کرنے کا موقع دیا، جس کا اعلان انہوں نے قوم اسمبلی کے فلور اور قوم سے خطاب میں کیا تھا کہ تمام ثبوت مجاز فورم پر پیش کیے جائیں گے، لیکن نواز وہاں بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت کے تین ججوں نے جے آئی ٹی کی صورت میں انہیں ایک اور موقع فراہم کیا کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہو، تو جے آئی ٹی میں پیش کرے، پھر بھی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے کیس احتساب عدالت میں بھیج کر نواز شریف کوثبوت پیش کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا لیکن نواز شریف کے پاس کوئی ثبوت تھا ہی نہیں جو وہ عدالت کو فراہم کرتا۔ یوں نواز شریف کو یقین ہوچلا تھا کہ عدم ثبوت کی بنا پر انہیں سزا ہو سکتی ہے۔ اس لیے وہ ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان پر الزامات بھی لگا رہے ہیں، تاکہ وہ عوام کی حمایت حاصل کرسکیں۔
نواز شریف کے ’’خلائی مخلوق‘‘ والے بیان پر لے دے جاری تھی کہ انہوں نے ممبئی حملوں پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہاں حملے کرنے والے نان سٹیٹ ایکٹرز کو ہمیں بھارت نہیں جانے دینا چاہیے تھا۔ دراصل سابق وزیر اعظم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان، کالعدم تنظیموں کا کردار تسلیم کرلے۔ نواز شریف کے اس بیان کے بعد بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اُٹھالیا کہ پاکستان دہشت گرد پیدا کرنے والا ملک ہے۔ دراصل دانستہ یا نادانستہ طور پر نہایت ہی خطرناک قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ بھارت میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے متعلق ممبئی کیس کی کارروائی مکمل کیوں نہ ہو سکی؟ کیا ہمیں سرحد پار جار کر لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟
نواز شریف کے اس بیان پر سیاسی قیادت نے شدید اور فوری ردعمل کا مظاہر کرتے ہوئے ممبئی حملوں پر ایک غیر ضروری، غیر محتاط اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان کو ملک دشمنی کے مترادف اور حقائق کے منافی قرار دیا۔
سیا سی قائدین کا یہ بھی کہناہے کہ نواز شریف کے اس بیان سے قوم کو دھچکا اور بھاتی مؤقف کو تقویت ملی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ ممبی کیس بھارتی ہٹ دھرمی اور عدم تعاون کی وجہ سے زیر التوا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کہ ممبی حملوں کے فوراً بعد بھارت نے الزام لگایا اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوششیں کی، لیکن نواز شریف نے ایک ایسے مقدے کو پاکستان کا مخالف بناکر پیش کر دیا جس میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ انھیں اپنے منصب کا احساس کرنا چاہیے تھا کہ کس طرح ان کے ایک ایک لفظ کوعالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

چودھری نثار نے کہا ہے کہ ممبی کیس بھارتی ہٹ دھرمی اور عدم تعاون کی وجہ سے زیر التوا ہے۔ (Photo: Dawn)

اس تمام تر صورتحال میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ وزیر اعظم خاقان عباسی کی زیرِ صدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم خاقان عباسی نواز شریف سے ملاقات کریں اور ان سے اس بیان کے بارے میں وضاحت طلب کریں۔ افسوس کہ وزیر اعظم نے ہاہر آکر پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا، جب کہ مریم اورنگ زیب نے وزیر اعظم کے پریس کانفرنس کو ٹی وی چینلز پرٹیلی کاسٹ ہونے سے روک دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار پھولوں کا نہیں بلکہ کانٹوں کا سیج ہوتا ہے جب کہ ریاست کا کوئی بھی عہدہ ایسانہیں ہوتا جس کے ساتھ ذمہ داریاں نہ جُڑی ہوئی ہوں۔ ریاست کا کوئی بھی عہدیدار(اعلیٰ یا ادنیٰ )ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے یہ حلف اُٹھاتا ہے کہ میں بحیثیتِ صدر، وزیر اعظم، وزرا یا وزیر اعلیٰ وغیرہ ملک کی سالمیت اور بقا پر حرف نہیں آنے دوں گا،یہ کہ میں ریاستی راز کو افشا نہیں کروں گا اور یہ کہ میں ملکی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاوں گا۔ اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔
ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان سیاست دانوں کو اپنی پوری زندگی اور اپنے قول و فعل کا احتساب کر نا پڑتا ہے۔ کیوں کہ بحیثیت (اعلیٰ یا ادنیٰ) عہدیدار کے اُس کے سامنے ریاست کے بہت سے راز رکھے جاتے ہیں اور ملک کے کسی بھی فرد سے وہ زیادہ معلومات رکھتا ہے۔لیکن اگر کوئی ایسا شخص جو تین بار اس ملک کا وزیر اعظم رہا ہو اور اس کے باوجود وہ غیر محتاط بیاں دیتا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ نہایت کم عقل ہے یا پھر نہایت ہی چالاک۔ اور اس نے یہ عمل جان بوجھ کر ریاست اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے دیا ہے۔اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جو کچھ کہا ہے مبنی برحقیقت ہے ( اگرچہ ایسا ہے نہیں) تو بھی یہ ایک قومی راز کے برابر ہے۔ جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علم میں آ یا یا لایا گیا تھا۔ نواز شریف کے اس بیان سے ملک کوفائدے کی بجائے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اگر کوئی عام فرد ایسان بیان دیتا، تو رات گئی بات گئی کے مصداق چند دن کے بعد دنیا بھول جاتی، اگر اس کے برعکس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص ایسا بیان دے، تودنیا اس کو حقیقت تسلیم کرے گی کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور سہولت فراہم کرنے والا ملک ہے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی درانی کا ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق ڈی جی کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب اور نواز شریف کا بیان پاکستان کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں؟ حکومت کواس کے اثرات سے بچنے کے لیے بروقت اقدامات کرنا ہوں گے۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔