صوبائی محکمۂ تعلیم کا نیا نخرہ

کچھ ہی عرصہ قبل محکمۂ تعلیم سکولز نے صوبے کے سماجی اور والدین کے معاشی حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے سرکاری سکولوں میں پتلونی یونیفارم متعارف کروایا اور یہ نہ دیکھ سکا کہ سرکاری سکولوں میں ایسے بچے بھی پڑھتے ہیں جو مناسب جوتے بھی نہیں خرید سکتے۔ ان سرکاری سکولوں میں اوپر پتلون اور شرٹ اور نیچے نہایت ہی غیر موزوں جوتے، جن میں اکثریت پلاسٹک کے سلیپر، ہوائی چپل وغیرہ کی ہوا کرتی تھے۔ یہ صورتِ حال پہلے تو مضحکہ خیز تھی اور پھر بچوں میں شدید احساسِ محرومی کا سبب بن گئی۔
یہ حقیقت تمام دانشمند لوگ جانتے ہیں کہ محکمۂ تعلیم کو اس کے پنڈتوں نے ایک کھلواڑ بنا کر رکھ دیا ہے۔ سلیبس کی کتابوں کا بہترین طریقہ تو یہ ہوتا کہ اس کو قابل افراد سے تحریر کیا جاتا، لیکن یاری دوستی کے جذبات کے تحت یہ اہم کام ٹیکسٹ بکس بورڈ کے اہل کار، جونیئر ٹیچرز سے لے رہے ہیں۔ عمر اور سروس کے حوالے سے نہیں بلکہ ذہنی استعداد اور بچوں کی سماجی اور نفسیاتی حیثیت کے حوالے سے۔ پورے صوبے کی ابتدائی جماعتوں سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک طلبہ و طالبات کی مذہبی تعلیم بورڈ میں تعینات ایک عدد مولوی صاحب کے حوالے ہے۔ اُن کی تالیف کردہ کتب کے مطالعے سے بہت کچھ سامنے آجاتا ہے۔ ذاتی منافع کے لیے کئی لاکھ بچوں کو وہ تعلیم نہیں دی جاتی، جو اُن کا اور اُن کے ملک کا حق ہے۔ محکمہ سکولز میں چوں کہ رکھوالے خود ملوث ہیں، اس سے کوئی بھی ڈائریکٹر سکول اس اہم ضرورت کی طرف متوجہ نہ ہوسکا کہ لاکھوں بچوں کو پڑھانے والی کتب کا مطالعہ غیر جانبدار ماہرین سے بھی کروایا جاتا کہ ہم بچوں کو کیا پڑھاتے ہیں اور وہ پڑھائی ہمیں کس قسم کے بچے واپس دے رہی ہے؟
آج کل تعلیمی بورڈ کے ملازمین حکومت کی چند پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مصروفِ احتجاج ہیں۔ اُن کے مطالبات ہم کہیں نہ دیکھ سکے ہیں۔ البتہ خبروں سے پتا چلا کہ وہ لوگ کسی ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ تعلیمی بورڈز کی صورت حال والدین جانتے ہیں کہ وہاں کرپشن اور نا اہلیت کا راج ہے۔ وہاں جو حضرات کلاس رومز سے اُٹھ کر جاتے ہیں، اُن میں اکثریت دفتری معاملات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے کلرکوں کے محتاج ہوتے ہیں اور جب افسر نالائق یا کرپٹ ہو، اچھے سے اچھا عملہ داغدار ہوجاتا ہے۔ اساتذہ افسران کے تحت بالواسطہ یا بلاواسطہ جتنے بھی ادارے ہیں، اُن میں قابلِ قدر اہلیت نہیں۔ بلکہ ہماری یونیورسٹیوں کو دیکھ لیں کہ ان کا آپس میں اور مارکیٹ یا حکومت کے ساتھ عملی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس طرح محکمہ سکولز اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے درمیان تعاون اور تعلیم کے فروغ کے لیے سوچ کی یکسانیت نہیں۔ ہر ایک تنہا پرواز کو پسند کرتا ہے بلکہ حسد بہت واضح ہے۔

آج کل تعلیمی بورڈ کے ملازمین حکومت کی چند پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مصروفِ احتجاج ہیں۔ (Photo: Swat News)

بہت سارے ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعے تعلیم کو عام اور سستا کیا جاسکتا ہے، لیکن غیر موزوں مینجمنٹ کے شکار اس بڑے محکمے میں اخراجات تو بڑے پیمانے پر کیے جاتے ہیں، لیکن اچھے نتائج دینے پر حکومت رشوتیں دینے پر اتر آتی ہے کہ جس پرنسپل اور ٹیچر کا رزلٹ اچھا آیا، اُسے اتنا انعام ملے گا۔ حالاں کہ اچھا پڑھانا اور اچھے (سچے) نتائج دینا ان لوگوں کا منصبی فرض اور ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ان کو قابلِ قدر تنخواہیں ملتی ہیں۔ کارکن اساتذہ کرام (ورکنگ ٹیچرز) اپنے فرائض درست انجام دیتے ہیں، لیکن محکموں میں بنیادی مسئلہ انتظامی کمزوری کا ہے۔
ایک دو عشرہ پہلے تک ہمارے صوبے میں سکول کے لڑکے ملیشا کے کپڑے، کالی پولیس ٹوپی اور ترجیحاً کالے چپل پر مشتمل یونیفارم استعمال کرتے تھے۔ بچوں کے لیے یہ ایک با وقار لباس تھا اور بہت ہی اچھا لگتا تھا۔ کالج کے لڑکے سفید قمیص شلوار پر مشتمل لباس، کالے چپل یا بوٹ کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ سردیوں میں شیروانی ہوتی تھی۔ یہ بھی بڑا پُروقار لباس ہوتا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں عوام کے ہر طبقے میں ایک عام خود سری اس مقدار میں پیدا کی گئی کہ پھر اُسے کنٹرول نہ کیا جاسکا، لیکن سکول کے یونیفارم پر کوئی اثر نہ پڑا۔ پھر اچانک اس صدی کے شروع میں سکولوں کے لڑکوں کے لیے سفید کپڑے لازم کیے گئے، لیکن سکولز ڈائریکٹوریٹ اس اقدام کے نفسیاتی اور معاشی اثرات کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ پی ٹی آئی دور میں صوبے کے سماجی اور معاشی حالات کو دیکھے بغیر سرکاری سکولوں میں گہرے نیلے رنگ کے شرٹ اور کہیں کالی اور کہیں براؤن رنگ کی پتلون پر مشتمل یونیفارم لایا گیا جس نے بچوں کے حسن کو گہنا دیا۔ اب خبر آئی ہے کہ پی ٹی آئی سرکار نے اجازت دی ہے کہ سرکاری سکولوں کے بچے چاہیں یہ مغربی لباس استعمال کریں، چاہے سفید کپڑے استعمال کریں یا چاہیں تو ملیشا پہنیں گویا کہ سکول ڈسپلن ختم۔
محکمۂ تعلیم میں غیر سنجیدہ فیصلے عام ہیں۔ بجٹ اس کو جائز حد سے زیادہ ملتا ہے،جس کا بڑا حصہ تنخواہوں پر خرچ ہوتاہے، باقی کا بڑا حصہ خراب تعمیرات اور ناقص اشیا کی نذر ہوجاتا ہے۔ بہترین بات ہوگی اگر محکمہ سکولز، پرائمری کلاسوں سے ہائیر سیکنڈری کلاسز تک یونیفارم ہلکے سلیٹی رنگ کا کروا دے اور ہر بچے کو نئی کلاس کے شروع میں مفت کتب کے ساتھ ساتھ دو جوڑوں کے برابر کپڑا دینا شروع کروائیں، تو یہ بچوں اور والدین کے لیے سکول تعلیم کو زیادہ دلکش بنائے گا۔ اگر بچوں کے سکول اور تعلیمی بورڈز کے اخراجات کو تعلیمی سال کے اختتام پر بنک کے ذریعے چکس کی مدد سے واپس کیا جائے، تو یہ سونے پر سہاگا ہوگا۔ ڈیڑھ لاکھ بچے نجی سکولوں سے سرکاری سکولوں میں معیار کی بہتری پر نہیں آئے، لیکن نجی سکولوں میں بھاری اخراجات کی وجہ سے آئے ہیں۔ یہ محکمے کی فتح نہیں بلکہ شکست ہے کہ نجی سکولوں کی امداد کے لیے قائم اداروں کو اس نے مفلوج کیا ہوا ہے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔