میں لیاقت بازار پشاور صدر کی دکان سے کتابیں خرید رہا تھا کہ اس اثنا میں اوور کوٹ میں ملبوس بابا عبید اللہ ؒ خان درانی آگئے۔ میں نے بابا سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا۔ بابا نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا "Oh I see” یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں اُن کے لیے اجنبی نہ تھا۔
میں اپنے اسکول ٹیچر محمد قاسم جان صاحب کے ساتھ بونیر قادر نگر جایا کرتا تھا۔ یہ غالباً 1981ء کی بات ہے۔ اُس زمانے میں پیر بابا سے بٹئی گاؤں تک پکی سڑک تو موجود تھی، لیکن قادر نگر تک پیدل جانا پڑتا تھا اور یہ راستہ کھیتوں میں، خوڑ (ندی) میں اور پہاڑ کے دامن میں کاٹنا پڑتا تھا۔ البتہ بابا جانؒ نے اپنے لیے چاند گاڑی بنائی ہوئی تھی۔ اُسی پر وہ کچا راستہ طے کرتے تھے۔ اُس زمانے میں بابا جانؒ، قادر نگر کے لیے خود بجلی پیدا کرتے تھے۔ کیوں کہ وہ اعلیٰ پائے کے انجینئر تھے اور پشاور یونیورسٹی میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔ قادر نگر آج بھی حسین ہے اور کل بھی حسین تھا۔ آج اگر قادر نگر میں اُن کا مزار ہے، تو کل اُن کی عملی موجودگی قادر نگر کے حسن کو چار چاند لگاتی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی موجودگی میں قادر نگر زیادہ حسین اور پُر نور تھا۔ جب کہ آج کل اُس میں بنیادی تبدیلی کی گئی ہے۔ اُس تاریخی بڑے چٹان پر اب تعمیری کام کیا گیا ہے جو کبھی اخوند درویزہ بابا سے منسوب ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑے چٹان سے ایک چشمہ رواں دواں تھا جس سے لوگ پانی پیا کرتے تھے۔ یہ ایک عجیب چشمہ تھا۔ ایک خشک ہموار چٹان سے بہت پریشر کے ساتھ ایک بڑے سوراخ سے پانی نکلتا تھا۔ اب وہ چشمہ نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ اُسے لوگوں کی نظروں سے چھپایا گیا ہے۔ جب بابا زندہ تھے، تو قادر نگر میں ہر کسی کی آمد و رفت رہتی تھی۔ کسی کے آنے یا جانے میں رکاؤٹ نہیں تھی۔ اب ایسا نہیں ہے، اب وہاں چوبیس گھنٹے چوکیداری کی جاتی ہے۔ کانٹا دار تاروں کا جال بچھایا گیا ہے۔ کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ قادر نگر کی مخصوص عمارتوں سے باہر ہی باہر عبید اللہ خان درانی مرحوم کے مزار کو راستہ دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے مزار تک آنے جانے میں کسی کے لیے رکاؤٹ نہیں ہے۔ جس طرح بانئی ریاست سوات نے زر کثیر خرچ سے مرغزار میں سفید محل بنوایا ہے، ٹھیک اُسی طرح درانی صاحب نے بہت کم خرچ سے انجینئرنگ کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قادر نگر بنوایا تھا۔
قادر نگر بنوانے کا خیال بھی ان کاتھا کہ ایک رات خواب میں انھوں نے یہ علاقہ دیکھا تھا اور اُن کو یہ علاقہ اتنا خوبصورت لگا تھا کہ پھر حقیقت کی دنیا میں بابا درانی نے اس علاقے کی تلاش شروع کی تھی۔ اس کے لیے وہ مارے مارے پھرتے رہے۔ ایک دن وہ اسی تلاش میں لگے ہوئے تھے کہ ایک انگریز سیاح کے سامنے انھوں نے اپنے خواب کا ذکر کیا کہ میں نے اس طرح ایک علاقہ خواب میں دیکھا ہے اور اب میں اُسے مدتوں سے تلاش کر رہا ہوں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جو علاقہ بابا نے خواب میں دیکھا تھا۔ اُس انگریز سیاح نے پہلے سے اسے دیکھا ہوا تھا۔ جو نقشہ بابا نے انگریز سیاح کے سامنے کھینچا، تو انگریز نے کہا کہ اس علاقے سے میں ہو آیا ہوں اور یہ جگہ میں آپ کو دکھا بھی سکتا ہوں۔ بابا درانیؒ نے انگریز کو ساتھ لیا اور انگریز نے بونیر میں ٹانٹہ نامی جگہ اُنھیں دکھائی، جہاں اب قادرنگر قائم ہے۔ جب بابا نے یہ جگہ دیکھی تو خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ بابا درانی نے وہ جگہ (موضع ٹانٹہ) خریدی اور 1964ء میں انھوں نے اپنے مرشد کے نام (قادر اولیا) سے قادر نگر بنوایا۔
عبید اللہ خان درانیؒ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ میں نے اُن کے ساتھ کئی عُرسوں میں شرکت کی ہے۔ وہ سراپا محبت تھے۔ وہ بہترین اخلاق کا نمونہ تھے۔ اُن کی زندگی میں قادر نگر کے تمام کمرے لوگوں کی آمدر فت کے لیے کھلے ہوتے۔ کسی سے کوئی باز پرس نہ تھی۔ جب بھی گرمیوں میں قادر نگر آتے، تو مریضوں کا مفت علاج کرواتے اور جب وہ پشاور میں ہوتے، تو یہی روش اپناتے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پشاور میں اُن کے ساتھ بڑا طبی عملہ ہوا کرتا تھا۔ جب کہ قادر نگر میں وہ یہ کام اکیلے کرتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے مریدوں کو کوئی وظیفہ (اسباق) بھی دیا کرتے تھے یا نہیں؟ کیوں کہ اُس زمانے میں مجھے اسباق کا کوئی خاص شغف نہیں تھا۔
بابا درانی ڈھیر ساری روحانی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ اُن کی کئی عنایت شدہ کتب میری ذاتی لائبریری کی زینت بن چکی ہیں۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔