مخلوط حکومت قائم ہوگی

لاہور میں تحریک انصاف کا جلسہ لاجواب تھا۔ ایک زمانے کے بعد کسی سیاسی جماعت نے اتنا بڑا ہجوم اکھٹا کیا۔ عمران خان کی تقریر، پاکستان کے مستقبل کو سنوارنے کی حکمت عملی، عہد اور عزم کا بہترین اظہار تھی۔ بلاشبہ اس جلسے نے دیگر جماعتوں اور خاص کر نون لیگ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اسے اب اس سے بڑا جلسہ کرنا ہوگا،تاکہ ثابت کیاجاسکے کہ لاہور آج بھی اس کا قلعہ ہے۔ پیپلزپارٹی کا تو پنجاب سے صفایا ہوچکا۔ قمرزمان کائرہ اور اعترازاحسن جیسے لیڈر یا تو تحریک انصاف کی چھتر چھایا میں جانے پر مجبور ہیں یا پھر ان کی سیاست اس سال ہونے والے عام الیکشن میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے متحدہ مجلس عمل کی تشکیل نو کرنے میں بہت دیر کر دی۔ غالباً پنجاب سے ان کے ہاتھ میں کچھ آنے والا نہیں۔ میدان صرف دو ہی جماعتوں کے درمیان سجے گا۔ شہریوں کو نون لیگ اورتحریک انصاف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ نون لیگ مخالف ووٹرز کے لیے کوئی دوسرا قابلِ ذکر متبادل نظر نہیں آتا۔
اس حقیقت کا کم لوگوں کو ادراک ہے کہ پاکستان میں الیکشن محض سیاسی جماعتیں لڑتی اور جیتی نہیں، نہ بڑے جلسے اور رائے عامہ کی حمایت ہی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ بہت سارے خارجی عوامل کسی جماعت یا سیاستدان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو اپنے حریفوں پر یہ برتری ضرور حاصل ہے کہ اس کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کی خدمت کی جس کا اعتراف عام لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں قومی سلامتی سے متعلقہ حلقوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل جنرنیلوں نے کیا۔ جنرل یحییٰ خان کو بھی ان کے ساتھیوں نے ہی گھر بھیجا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمہ کا قصہ تو اب ہمارے لوک کہانیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی بہاولپور فضائی حادثے میں ہلاکت کے حوالے سے جو رپورٹیں چھپی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ اس میں ضیا کے اپنے دوستوں کا بھی ہاتھ تھا۔ پرویز مشرف کو آصف علی زرداری ایوانِ اقتدار سے نکال نہ سکتے، اگر قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کی رضامندی اور مدد شامل نہ ہوتی۔ اب نواز شریف کی مستقل نااہلی اور پارٹی صدارت بھی چھن جانے کا مطلب ہے کہ عمران خان کے لیے راستہ صاف کردیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب اس مرتبہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے یا کہ غیر جانب دار رہیں گے؟ پاکستان کے اندرامریکیوں کے سیاسی اور سماجی اثرورسوخ میں گذشتہ ایک عشرے میں معتدبہٖ کمی واقع ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے خفیہ اداروں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان اگرچہ ورکنگ رلیشن شپ قائم ہے، لیکن وہ ہر میدان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو تصادم کی شکل اختیار کرنے سے بچا لیا ہے، لیکن دونوں ممالک کے اداروں میں پائے جانے والے اعتماد کے فقدان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔اس کے باوجود یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکیوں کے فیورٹ نواز شریف ہیں۔
سعودی عرب نے گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کو ادارتی سطح پر غیر معمولی وسعت دی ہے۔ شاہی خاندان اب شریفوں کی پُرجوش حمایت نہیں کرتا۔ وہ راولپنڈی کی پالیسیوں سے متصادم نقطۂ نظر رکھنے کا روادار نہیں۔ سعودیوں کو اس وقت سخت دکھ اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا جب نوازشریف نے یمن فوج بھیجنے کی سعودی درخواست کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر سبوتاژ کرا دیا۔ نوازشریف نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں بڑی حکمت عملی سے سعودیوں سے دور کرایا گیا ہے، لیکن وہ اس کھیل کا بروقت ادراک نہ کرسکے۔

سعودی عرب نے گذشتہ ایک ڈیڑھ برس میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کو ادارتی سطح پر غیر معمولی وسعت دی ہے۔ (Photo: Voice.pk)

عمران خان نے امریکیوں اور سعودیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈروں میں سے کئی ایک نے ایران کے ساتھ بہت قریبی اور اسٹرٹیجک تعلقات استوار کیے۔ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کا خیال ہے کہ سلفی مکتب فکر کے ووٹرز تو پہلے ہی نوازشریف کے حامی ہیں۔ اگر ایران کے توسط سے شیعہ ووٹرز کو متحرک کیا جاسکے، یا پھر اس مکتبِ فکر کی بااثر لابی جو کبھی پنجاب اور کے پی کے میں پیپلزپارٹی کا دست و بازور تھی، تحریک انصاف کی حمایت کرے، تو پارٹی کی قوت میں کئی گنا اضافہ ہوسکتاہے۔ شیعہ لابی کا میڈیا میں بھی غیر معمولی اثر و رسوخ ہے۔ وہ میڈیا کو بھی حکمت سے پی ٹی آئی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایران کے ساتھ تعلقات پرریحام خان کی جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی کتاب میں کافی کچھ پڑھنے کو ملنے والا ہے۔
عمران خان نے جس طرح کشمیر کے مسئلہ پر مستقل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے، اس کا بھی ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف برسراقتدار آگئی، تو وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کراسکتے ہیں۔ دسمبر 2015ء میں عمران خان انڈیا ٹوڈے کی ایک کانفرنس میں نئی دہلی گئے، تو ان کی مودی کے ساتھ ملاقات غیر معمولی حد تک خوشگوار رہی۔ مودی غیر ملکی مہمانوں کو خوش کرنے کے فن میں طاق ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو تاثر دیا کہ وہ مل کر اس خطے کے مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ بھارتی لیڈرشپ عمران خان کے دبنگ طرز سیاست کی مداح بھی ہے۔ وہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں کرتے یا پھر دبے لفظوں میں کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی کا ایک مقصد یہ ہے کہ بھارتی لابی امریکہ میں خاموشی سے اپنا اثر ورسوخ تحریک انصاف کے حق میں استعمال کرے۔
پاکستان کی تاریخ میں غالباً 1970ء کا واحد الیکشن تھا جو آزادانہ اور شفاف ہوا لیکن اس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد کوئی ایک بھی الیکشن ایسا نہیں ہوسکا جس کے نتائج پہلے سے نوشتۂ دیوار نہ ہوں۔ہر الیکشن سے پہلے باخبر لوگوں کو پتا ہوتاہے کہ ملکی سیاست کا کیا نقشہ بننے جا رہا ہے؟ اسی نقشے کے مطابق گھاگ سیاستدان اپنی وفاداریوں تبدیل کرتے ہیں۔ نئی پارٹیاں یا دھڑے بناتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کو تمام سیاسی اور نادہیدہ قوتوں کے اشتراک نے سیاست میں اچھوت بنا کررکھ دیا تھا،آج وہی حال نون لیگ کا ہونے جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ تماشا دیکھ رہی ہے لیکن یہ ادراک نہیں کر رہی ہے کہ اس طرزِسیاست کا کسی کو بھی کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ایسا نظر آتا ہے کہ اس سال کی آخری سہ ماہی تک ملک میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوچکی ہوگی، جس میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ایک طرف کھڑی ہوں گی۔ نون لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور کسی حد تک متحدہ مجلس عمل لائن کے دوسری جانب۔ وزارت عظمیٰ کا قرعہ کس کے نام نکلے گا؟ ابھی اندازہ کرنا مشکل ہے۔ غالب امکان ہے کہ کوئی ایسا امیدوار تلاش کیاجائے گا جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ سب کے لیے قابل قبول کا مطلب ہے کہ قومی سلامتی کے متعلقہ اداروں، پی پی پی اور دیگر حلیف جماعتیں جس پر اعتماد کرسکیں۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔