دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جن طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہ آسانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ میری ذاتی تحقیق کے مطابق ان طلبہ جن کو سزا ملنے کا ڈر رہتا ہے، کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو کر رِہ جاتی ہیں۔ ان کا دھیان پچاس فیصد سے بھی زیادہ استاد صاحب کے غصے کی طرف ہوتا ہے۔ پھر ان کا مقصد صرف سزا سے بچنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی طلبہ اچھے نمبروں سے پاس ہوکر صرف نوکری کی تلاش میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔

میں بچپن میں اُسی استاد صاحب سے باآسانی سیکھ لیا کرتا تھا، جو خوشگوار موڈ میں پڑھایا کرتا تھا۔ غصیلے استاد محترم چاہے جتنی بھی محنت کریں، نتیجہ صفر رہتا ہے۔ میرے علاوہ اکثریتی طلبہ کی بھی یہی رائے ہے۔ کلاس کے دوران میں اگر بچے کو نیند آگئی، تو اس میں غصے والی کون سی بات ہے؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ بچہ بیمار ہو یا اس کی طبیعت ٹھیک نہ ہو۔ جب بچہ سکول دیر سے پہنچتا ہے، تو یہ بھی تو ہوسکتا کہ اس کا گھر دور ہو اور کرایہ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیدل آ یا ہو، یا پھر اس کی ماں بیمار ہو اور ناشتہ تیار کرنے میں دقت پیش آئی ہو۔ اس طرح جب بچے کو سبق سیکھنے میں مشکلات درپیش ہوں، تو غلطی استادِ محترم کی بھی تو ہوسکتی ہے۔ شائد وہ بچوں کی نفسیات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نھیں پا رہا ہو۔

اس طرح اگر کمزور بچوں کی حوصلہ افزائی اور ذہین کی تعریف کی جائے، تو نتائج خاطرخواہ برآمد ہوسکتے ہیں۔ بعض ذہین بچے حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ معمولی سی ڈانٹ کی وجہ سے ماند پڑ جاتے ہیں۔ کلاس میں ملنے والی سزا اور بے عزتی کی وجہ سے بچپن ہی میں ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بناوٹی قابلیت کے نتائج یہ ہیں کہ ڈاکٹرز اکثر مریض کے پیٹ میں قینچی بھول جاتے ہیں۔ انجینئرز ہمیں چین سے منگوانے پڑتے ہیں اور قانون دانوں کا یہ حال ہے کہ ستر سال کے بعد بھی ہمارا ملک انگریزوں کے بنائے گئے قانون پر عمل پیرا ہے۔
میرا خیال ہے کہ مار پیٹ سے صرف ڈرایا جاسکتا ہے، کسی کی تربیت نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے "مار نہیں، پیار” کو ترجیح دیں۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔