عالمی یومِ ارض

زیادہ عرصے کی بات نہیں بلکہ ہماری اپنی یادداشت کے مطابق یعنی آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہمارا ماحول نہایت صاف ستھرا اور پُرسکون تھا۔ ہر طرف ہریالی تھی۔ درخت، جڑی بوٹیاں، باغات، کھیت، کھلیان، جنگلات، زرعی قطعاتِ اراضی، کھلے میدان اور بیابان تھے۔ ندی، نالے، دریا، چشمے، تالاب اور کنوئیں صاف پانی سے پُر تھے۔ پہاڑوں پر برف باری ہوتی۔ تقریباً سارا سال پہاڑ برف سے ڈھکے رہتے جب کہ جنگلی حیات کی بھی بہتات تھی۔ آج کی طرح پانی اور لکڑی کی قلت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آج کی نسبت اُس زمانے میں زندگی سادہ تھی اور لوگ خوشحال تھے۔ پھر انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔ نئی نئی مشینیں ایجاد ہوئیں اور کارخانے بھی قائم ہوئے، تو اس کے ساتھ ساتھ شعبۂ طب میں بھی کافی ترقی ہوئی۔ بانجھ پن اور زندگی بچانے والی ادویہ ایجاد ہوئیں، تو شرحِ پیدائش میں اضافہ اور شرحِ اموات میں کمی ہوئی۔ نتیجتاً آبادی بڑھنے لگی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر دھڑا دھڑ تعمیرات ہونے لگیں۔ پھر کیا ہوا، جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہونے لگا، زرعی اراضی گھٹ گئی، جنگلی حیات ناپید اور پانی کی کمی ہوئی۔ آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ظاہر ہے آج جب زمین سے فطرت تیزی سے رخصت ہورہی ہے، تو انسان اپنے کیے دھرے کا نتیجہ خوب بھگت رہا ہے۔ کیوں کہ آج ہماری زمین سنجیدہ ماحولیاتی مسائل کا شکار اور گھمبیر حالت سے گزر رہی ہے۔
موجودہ سائنسی ترقی نے کرۂ ارض کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے اور موجودہ دور کا انسان ماحولیات کے شدید مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ انسان صنعت کو چلانے کے لیے توانائی کے مختلف ذرائع یعنی پیٹرول، ڈیزل اور نباتاتی و معدنی کوئلہ استعمال کر رہا ہے جس سے ارد گرد کا ماحول آلودہ ہونے کے علاوہ انسانی صحت اور زندگی پر بھی کافی برے اثرات پڑ رہے ہیں اور توانائی خرچ کرنے سے نکلنے والے دھوئیں اور کیمیائی اجزا کے زہریلے اثرات سے حیوانات اور نباتات کی تباہی کا سامان پیدا ہورہا ہے۔ اگر چہ دورِ جدید کی ایجادات نے انسان کو کافی فوائد اور آسائشیں مہیا کیں لیکن ان کی تباہ کاریاں بھی کچھ کم نہیں۔
ان ہی حالات کے پیشِ نظر دنیا کے دردِ دل رکھنے والے ماہرین نے انسانوں میں یہ شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کی کہ کرۂ ارض کے ماحول کو بچائیں، چناں چہ ہر سال 22 اپریل کو عالمی سطح پر ’’ورلڈ ارتھ ڈے‘‘ یعنی ’’عالمی یومِ ارض‘‘ منایا جاتا ہے۔ عالمی یومِ ارض سب سے پہلے امریکی سینیٹر گیلارڈ لینسن نے 22 اپریل 1970ء کو منایا۔ اس کے بعد یہ دن ساری دنیا میں ہر سال 22 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ پہلے پہل اس روز دو کروڑ امریکی باغوں اور سڑکوں پر نکل آئے اور انسانوں کو احساسِ زیاں دلایا۔ اس روز امن کی عالمی گھنٹی بھی بجائی جاتی ہے۔ 22 اپریل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس روز موسمی لحاظ سے دن اور رات بھی برابر ہوجاتے ہیں۔
آج ہماری زمین سے فطرت تیزی سے رخصت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ’’اُوزون‘‘ کی حفاظتی تہہ جو سورج کی خطرناک شعاعوں کے لیے حفاظتی ڈھال ہے، متاثر ہوئی ہے، جس سے گلے اور جلد کی سرطان اور آنکھوں کی بیماریاں پیدا ہونے کے شدید خطرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مضرِ صحت گیسوں کے افراط سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے جسے عام طور پر عالمی حدت یا ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کہتے ہیں جس سے موسموں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آرہی ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول کے بچاؤ کو قومی فریضہ سمجھا جائے۔ 22 اپریل کا تقاضہ ہے کہ ہر پاکستانی زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرے اور جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ گندگی اور مضر صحت مادوں کو ٹھکانے لگایا جائے۔ سرکاری حکم سے پولی تھین بیگز پر پابندی لگائی جائے اور تمام قوم مع سرکار مشترکہ ذمہ داری سمجھ کر ماحول بچاؤ مہم میں بھر پور کردار ادا کرے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔