وہ کوئی عام قراقلی نہیں تھی

میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ میں کابلی قراقلی ٹوپی نہ پہنوں۔ وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ہمارے ہاں جو قراقلی ٹوپی بنتی ہے، اُس میں نفاست اور خوبصورتی زیادہ ہے۔ جب کہ کابلی قراقلی ٹوپی کی بناوٹ اس سے مختلف ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی قراقلی پہنی اور نہ مجھے اس فرق کا کچھ اندازہ تھا۔ بس صرف ایک تصویر کی بات تھی، جسے دوستوں نے سنجیدگی سے لیا۔ دراصل پرانے وقتوں میں، مَیں پشاور میں کچھ عرصے کے لیے مقیم رہ چکا ہوں، تو وہاں قصہ خوانی بازار کی کئی دکانوں میں قراقلی ٹوپی بنتے ہوئے میں دیکھتا تھا۔ یہاں مینگورہ بازار میں سوات کیپ ہاؤس کی قراقلی ٹوپی بھی کافی شہرت کی حامل ہے۔ ان سے صدر ایوب خان بھی قراقلی ٹوپی بنوایا کرتے تھے اور ہمارے والی سوات بھی۔ میں نے پیر اکبر بلند کے ہاتھوں میں وہ قراقلی ٹوپی بھی دیکھی تھی، جو انہوں نے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کے لیے سوات کیپ ہاؤس سے خصوصی طور پر بنوائی تھی۔ پیر اکبر بلند سابق صدر پرویز مشرف کے شیدائی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اُن سے ملاقات کے لیے دبئی ہوکر آئے ہیں۔

افضل خان لالا کی فائل فوٹو جس میں انہوں نے قراقلی ٹوپی پہنی ہے۔ 

آمدم برسرِ مطلب، قراقلی ٹوپی کے لیے خام مال افغانستان اور قبائلی علاقوں سے آتا ہے۔ قیمتی قراقلی کی اونی کھال حاصل کرنے کے لیے بڑا ظالمانہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ حاملہ بھیڑ سے بچہ حاصل کرنے کے لیے اس کا حمل گرایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دورانِ حمل بھیڑ کو دوڑایا جاتا ہے اور یہ دوڑ اُس وقت تک جاری رکھی جاتی ہے جب تک کہ بھیڑ بچے کو گرا نہ دے۔ یہ نہایت سفاکانہ اور ظالمانہ عمل ہے۔ اس وجہ سے مَیں قراقلی ٹوپی کو ظلم کا ایک نشان سمجھتا ہوں۔ پہلے اس کا رواج زیادہ ہوا کرتا تھا، اب سرد علاقوں کے مالدار لوگ اسے پہنتے ہیں۔

ایک آدمی سواتی قراقلی ٹوپی پہنے بیٹھا ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

اب میں نے جو قراقلی ٹوپی محض تصویر بنوانے کے لیے سر پر رکھی تھی، وہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک تاریخی نوعیت کی حامل ٹوپی تھی۔ وہ مرحوم محمد افضل خان لالا کی تھی، جنہیں یہ ٹوپی افغانستان کے سابق صدر حامد کرزیٔ نے اپنے دورِ صدارت میں پہنائی تھی۔ بعد ازاں سالار عبدالرحیم خدائی خدمت گار کو یہ قراقلی (ر) بریگیڈئیر سلیم خان سے تحفتاً ملی تھی۔ یہ خالص کابلی قراقلی ٹوپی تھی جس کی بناوٹ ہمارے علاقے کی ٹوپی سے بالکل الگ تھی۔ یہاں کے لوگ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے، لیکن وہاں افغانستان میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ مَیں نے محض تصویر کھینچنے کے لیے اسے پہنا تھا۔ اس لیے کہ یہ محمد افضل خان لالا مرحوم پر بہت جچتی تھی اور مجھے اُن سے عقیدت تھی۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔