میں صبح اُٹھ کر اخبارات کے مطالعہ سے اپنے ناشتے کا باقاعدہ آغاز کرتا ہوں۔ یہ سہولت مجھے انٹرنیٹ فراہم کرتا ہے، جہاں قومی و علاقائی اخبارات کے آن لائن ایڈیشنز موجود ہوتے ہیں۔ گذشتہ صبح ایک اخبار کے صفحہ اول پر ایک خبر نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ پاکستان نے ’’خوشی‘‘ میں بھارت کو 58 درجے پیچھے چھوڑ دیا ہے، یعنی کہ انسانی مسرت اور خوشی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان نے 75ویں پوزیشن اور بھارت نے 133ویں پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان نے اپنے انتہائی قریبی دوست چین سے گیارہ درجے، ایران سے اکتیس درجے اور افغانستان سے ستر درجے سبقت بھی حاصل کر لی ہے، یعنی کہ دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطے جنوبی ایشیا میں بسنے والے تقریباً ایک ارب اسی کروڑ لوگوں میں سے بائیس کروڑ پاکستانی سب سے زیادہ خوش اور شاد قرار پائے ہیں۔
نئی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام خوش ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور دنیا کے خوش ممالک کی فہرست میں یہ ملک چین اور بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوشی اور غم زندگی کی وہ کیفیات ہیں جو ہر انسان پر یکے بعد دیگرے طاری ہوتی رہتی ہیں۔ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے اور اس کی ساری زندگی خوشی حاصل کرنے کی تگ و دو میں گزر جاتی ہے، مگر اس کمبخت کی مثال اُس تتلی کی سی ہے جو دیکھنے میں تو خوبصورت ہوتی ہے، لیکن بڑی مشکل سے ہی پکڑائی دیتی ہے۔ پاکستانی عوام سے خوشی ایسے دور بھاگتی ہے جیسے گھروں سے بجلی، گیس اور پانی غائب رہتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار عوام کے چہروں پر اس کے آثار ضرور دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی عین اُس وقت جب اْن کا چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے پالا پڑتا ہے۔ اگر یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی ڈھونڈے سے نہ ملیں، تو پھر اس قوم کو اس حد تک کمال حاصل ہے کہ گنڈیری کے رس کی طرح غم سے بھی خوشیاں نچوڑ لیتی ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے نہال ہو جاتے ہیں اوراس کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ بڑی خوشیوں نے ایک عرصہ سے منھ نہیں دکھایا۔
کہتے ہیں کہ زندگی میں کسی بڑی خوشی کو پانے کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہنا چاہیے۔ بڑی خوشیاں ملک کے دگرگوں حالات سے ناراض ہو کر کہیں دور چلی گئی ہیں اور معلوم نہیں کب واپس آئیں؟ البتہ آج کل عوام چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر ہی گزارا کر رہے ہیں بلکہ یہ چھوٹی خوشیاں اس حد تک جمع کر رکھی ہیں کہ اب انہوں نے اسے کاروبار کی شکل دے کر ’’خوشیاں برائے فروخت‘‘ کا بورڈ بھی آویزاں کر دیا ہے۔ مثلاً بازار سے خریداری کے بعد زندہ گھر واپس آنے کی خوشی، مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد بم دھماکے سے بچ جانے کی خوشی، گھنٹوں غائب رہنے کے بعد کچھ دیر کے لیے بجلی آنے کی خوشی، بس میں دھکم پیل کے بعد سیٹ مل جانے کی خوشی، پٹرولیم مصنوعات میں دس روپے اضافہ کے بعد پچاس پیسے کمی کی خوشی، بس سے اُترتے وقت موبائل اور بٹوہ جیب میں موجود ہونے کی خوشی، مسجد سے نکلتے وقت چپل مل جانے کی خوشی وغیرہ۔ بات صرف اِدھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی اس طویل فہرست میں مشرف کے جانے کی خوشی، زرداری کے آنے کی خوشی، پھر زرداری کے جانے کی خوشی، نواز شریف کے آنے کی خوشی، نواز شریف کے جانے کی خوشی، شاہد خاقان عباسی کے آنے کی خوشی وغیرہ بھی شامل ہیں۔
آج کل کے دور میں خوشیاں مشکل سے ہی ملتی ہیں اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں جمع کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس خوشیاں منانے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن پھر بھی ہم اس پر دھیان نہیں دیتے۔ یہ خوشیاں جمع کرنے اور پھر ’’خوشیاں برائے فروخت‘‘ کا بورڈ آویزاں کر کے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے پر پیارے وطن پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی دعائیں دینا مت بھولیے گا کہ جن کی سخت محنت کے صلے میں ہی ایسی خوشیاں نصب ہوئی ہیں۔ ہم بھولے عوام حکمران تو چُن لیتے ہیں، مگر ناشکرے اس قدر ہیں کہ اُن کی فراہم کردہ خوشیوں پر دھیان ہی نہیں رہتا۔
ایک برطانوی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑھاپا اپنے ساتھ خوشیاں لے کر آتا ہے۔ عام خیال تو یہی ہے کہ آدمی کو اپنا بچپن خوشیوں سے بھرپور لگتا ہے اور جوانی اُمنگوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے، مگر نئی ریسرچ کے مطابق ہم جیسے جیسے بوڑھے ہوتے ہیں خوشیوں کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شاید اسی خوش فہمی میں ساری پاکستانی قوم وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔ اب اگرکل کلاں اقوام متحدہ کی ’’ورلڈ ہیپی نس‘‘ کی طرح ’’ورلڈ اولڈ نس‘‘ پر بھی عالمی درجہ بندی ہوئی، تو ہمیں یقین ہے کہ اس فہرست میں پاکستان پہلی پوزیشن کا حقدار ٹھہرے گا۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔